اسلام آباد کے دل میں ایک 'جلوزئی کیمپ' کا قیام

12 ستمبر 2014
اسلام آباد میں آزادی مارچ میں شریک افراد— اے ایف پی فوٹو
اسلام آباد میں آزادی مارچ میں شریک افراد— اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد : آج کل اسلام آباد کی شارع دستور خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے جلوزئی کیمپ اور بنوں میں نئے قائم کیے گئے بکاخیل کیمپ کی شکل پیش کررہی ہے۔

پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے دھرنے میں منگل کو ایک دورے کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگ خیموں کے اندر اور باہر رہ رہے ہیں۔

سات سالہ صوفیہ شہروز اپنے والدین کے ہمراہ اس دھرنے میں لگ بھگ چوبیس روز سے شریک ہے، یہ خاندان یہاں ضلع چینیوٹ کے علاقے بھروانہ سے ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں 'انقلاب' کے لیے آیا ہے۔

مرطوب موسم میں صوفیہ ریڈ زون میں ڈی چوک کے قریب اپنے خیمے کے باہر اپنی گڑیا کے لیے ایک مٹی کا گھر تعمیر کرنےک ی کوشش کررہی ہے، یہ اس کا مقصد ہے کیونکہ اس کی اسکول ٹیچر نے اسے بتایا تھا کہ مٹی کے گھر گرمی میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔

اسے یہ گڑیا اس کے والد نے امتحانات میں کامیابی کے بعد بطور تحفہ دی تھی۔

دھرنے کے شرکاءکے مطابق مختلف وجوہات کی بناءپر سینکڑوں افراد اپنے خاندانوں کے ہمراہ اپنے اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں، تاہم متعدد تاحال شارع دستور میں کھلے آسمان تلے قیام پذیر ہیں۔

تاہم ان کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ وفاقی دارالحکومت کا غیرمتوقع موسم ہے۔

صوفیہ کے والد 45 سالہ شہروز واہلہ کا کہان ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پی اے ٹی کی قیادت گزشتہ تین ہفتوں کے دوران انقلاب لانے میں ناکام رہی ہے، جبکہ لوگوں کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

ان کے بقول" کیا آپ کے خیال میں لوگوں کے لیے اپنے دفاتر اور بچوں کے لیے اپنے اسکولوں سے لگ بھگ ایک ماہ تک غیرحاضر رہنا آسان ہے"۔

انہوں نے کہا کہ لوگ دھرنے میں اس توقع کے ساتھ شرکت کے لیے آئے تھے کہ پی اے ٹی کے مطالبات دو سے تین روز میں منظور کرلیے جائیں گے،جبکہ طاہر القادری کی جانب سے بھی حکومت پر دباﺅ ڈالنے کے لیے دھرنے کے اولین پندرہ روز کے دوران کئی بار ڈیڈلائنز دی گئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا" مگر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر کے سبب پی اے ٹی کی قیادت اب مزید ڈیڈلائنز کے اعلان کے خیال سے پیچھے ہٹ چکی ہے "۔

اسی طرح لکی مروت سے آنے والے پی ٹی آئی کے ایک حامی قیصر ختک کا کہنا ہے کہ دھرنے کے اولین دو ہفتوں کے دوران بار بار ڈیڈلائنز کے اعلانات ان کی پارٹی قیادت کا غلط فیصلہ تھا۔ اس کا کہنا تھا" پہلے عمران خان نے ڈیڈلائنز کا اعلان کیا، مگر تیس اگست کو وزیراعظم ہاﺅس کی جانب بڑھنےک ے فیصلے اور پولیس کے ساتھ شارع دستور پر جھڑپوں کے بعد پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے قائدین نے مزید ڈیڈلائنز دینا بند کردیں"۔

دھرنوں کے شرکاءکے مطابق دونوں جماعتوں کی قیادت اب نئے محاذ جیسے جے یو آئی ف کے سربراہ پر تنقید، گزشتہ سال کے عام انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات، بلوچستان میں گزشتہ سال ہزارہ برادری کے اراکین کے قتل پر گورنر راج کے قیام پر تنقید اور وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جیسے اعلانات کے ذریعے لوگوں کی توجہ دوسری جانب مرکوز کرائی جارہی ہے۔

شرکاءکا مزید کہنا تھا کہ حکومت چینی صدر کے دورے سے قبل تو سیاسی بحران کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی مگر اس دورے کے ملتوی ہونے کے بعد وہ اب اسے طول دینے کی کوشش کررہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں