آئی ایس کے خلاف جدوجہد میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ

13 ستمبر 2014
کردستان ورکرز پارٹی کی خاتون رکن مخمور کے پہاڑی علاقے میں ہتھیار لیے کھڑی ہے—۔فوٹو اے ایف پی
کردستان ورکرز پارٹی کی خاتون رکن مخمور کے پہاڑی علاقے میں ہتھیار لیے کھڑی ہے—۔فوٹو اے ایف پی

مخمور: شمالی عراق کے پہاڑی علاقے مخمور کو اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے جہادیوں سے آزاد کرانے کے لیے کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے مرد اراکین کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ان خواتین نے جہادیوں کے خواتین کے ساتھ سلوک کی بناء پر اس جنگ کو اپنا ذاتی مشن بنا لیا ہے۔

شمالی عراق کے پہاڑی علاقے میں کندھے پر رائفل اور بیلٹ میں موجود گرنیڈ کے ساتھ مسلح تیکوشن کا مشن خواتین کو آزاد کرانے کی غرض سے اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں سے جنگ کرنا ہے۔

ستائیس سالہ تیکوشن کا کہنا ہے کہ 'وہ اور دیگر خواتین صرف اس وجہ سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف نہیں لڑ رہی ہیں کہ وہ محض کردوں کے خلاف ہیں بلکہ ہم اس وجہ سے بھی اس جنگ کا حصہ بن رہے ہیں کیوںکہ وہ خواتین کی آزادی کے خلاف ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آئی ایس کے لوگ اپنے زیرِاثر علاقوں میں خواتین کو مارکیٹ تک جانے نہیں دیتے اور انہیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے سروں کو ڈھانپے رکھیں'۔

تیکوشن کے مطابق 'اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ان کی جدوجہد کا مقصد خواتین کو ان سے اور ان کے شدت پسندانہ نظریات سے نجات دلوانا ہے'۔

مخمور کی پہاڑیوں پر کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے مرد جنگجوؤں کے ساتھ پچاس کے قریب خواتین بھی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ نے ترکی میں 1984ء میں ایک خود ساختہ ریاست کا اعلان کیا تھا اور اسے امریکا سمیت دیگر ممالک کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا، تاہم 2012ء میں انہوں نے امن مذاکرات کا آغاز کردیا تھا۔

تیکوشن کا کہنا تھا کہ 'خواتین یہاں مردوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں، تاکہ ان جہادیوں کو بے دخل کیا جا سکے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'ہم عموماً چار چار خواتین کے گروپ کی صورت میں منظم رہتی ہیں اور ایک گروپ کی کمانڈر میں خود ہوں۔ تاہم جب لڑائی کا وقت آتا ہے تو ہم بکھر جاتے ہیں اور ہم سب مرد اور خواتین جنگجو مل کر مختلف محاذوں پر لڑتے ہیں'۔

کردستان ورکرز پارٹی کی خاتون ارکان پیٹرولنگ کر رہی ہیں—۔فوٹو اے ایف پی
کردستان ورکرز پارٹی کی خاتون ارکان پیٹرولنگ کر رہی ہیں—۔فوٹو اے ایف پی

شادی سے متعلق سوال کے جواب میں تیکوشن نے کہا کہ' ہم میں سے بیشتر خواتین غیر شادی شدہ ہیں، میں نے پی کے کے کو اس وقت جوائن کیا جب میں محض چودہ برس کی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری پارٹی خواتین کو شادی کرنے سے نہیں روکتی تاہم اس پر تیوری ضرور چڑھائی جاتی ہے'۔

تیکوشن نے جہادیوں کے ردّعمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین کو دوبدو لڑتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔

تیکوشن نے بتایا کہ 'میرے خیال میں اسلامک اسٹیٹ مردوں سے زیادہ ہم خواتین سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ کسی عورت کے ہاتھوں مریں گے تو وہ دوزخ میں جائیں گے'۔

تاہم تیکوشن کا کہنا تھا کہ وہ کلاشنکوف اور رائفل کے ساتھ بہترین طریقے سے لڑ سکتی ہیں۔

اسی گروپ میں شامل اٹھارہ سالہ ساریہ کا کہنا تھا کہ وہ ہلکے اور بھاری ہر طرح کے ہتھیار چلا لیتی ہے۔

ساریہ کی پرورش شمالی شام میں ہوئی اور اس کے دونوں بھائی اور ایک بہن بھی اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں، جبکہ اس کے والدین بھی پی کے کے کے رکن تھے۔

ساریہ کا کہنا ہے کہ 'بچپن میں مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں کبھی جنگجو بنوں گی تاہم اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ میری قوم کو میری ضرورت ہے اور میں نے یہ راستہ اختیار کرلیا'۔

آئی ایس کے جہادیوں نے عراق کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، اس کے ساتھ پڑوسی ملک شام کے بیشتر علاقوں پر بھی ان کا قبضہ جہاں اس تنظیم نے خود ساختہ اسلامی ریاست قائم کر رکھی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں