چڑھتا ہوا دریائے سندھ

14 ستمبر 2014
مزدور ٹوری بند کو مضبوط بنانے کے لیے کام میں مصروف— وائٹ اسٹار فوٹو
مزدور ٹوری بند کو مضبوط بنانے کے لیے کام میں مصروف— وائٹ اسٹار فوٹو

صبح ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی اور بادلوں سے خالی آسمان اور آگ برساتے سورج کے نیچے طاقتور دریائے سندھ ٹوری بند کے نیچے سست روی سے بہتا ہوا جگمگا رہا تھا، یہ ان تباہی کے مناظر سے کافی دور تھا جن کا سامنا پنجاب کو دریائے چناب میں سیلاب کے نتیجے میں گزشتہ چند روز کے دوران کرنا پڑا۔

تاہم جو لوگ صوبہ سندھ میں اس طاقتور دریائے سندھ کے کناروں پر رہائش پذیر ہیں خاص طور پر کچے کے علاقے میں، اب تک 2010 کے 'سپر فلڈ' کی بدترین یادوں کو بھلا نہیں سکے ہیں اور وہ دریا میں کسی سیلاب کے آثار دیکھنے کے لیے گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

انہیں حکومت پر یقین نہیں اور وہ انتظامیہ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ کسی قدرتی آفت سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

متعدد بستیاں 2010 میں سیلاب کی نذر ہوگئی تھیں اور ٹوری بند میں شگاف پڑنے سے(جو دانستہ ڈالا گیا یا سیلاب کی وجہ سے) نے بے پناہ تباہی ہوئی تھی، جام شور کے کچھ دیہاتی جو 'سپرفلڈ' میں خود کو بچانے میں کامیاب رہے، نے ہم سے بات کرتے ہوئے ان دنوں کی یادوں کو دوہراتے ہوئے اس آفت کے لیے قیامت صغریٰ کی اصطلاح استعمال کی۔

ایک مقامی شخص نے بتایا"ہم پانی کے ریلے کی آمد کی گرج سن سکتے تھے، وہ بہت خوفناک تجربہ تھا"۔

جام شورو میں ترکی کے تعاون سے تعمیر ہونے والے ایک اسمارٹ نئے سکول ہاﺅس میں ہماری کچھ رہائشیوں سے ملاقات ہوئی، بہت اچھے تعمیر شدہ کلاس رومز میں نوجوان اپنے اسباق پڑھ رہے تھے، ایک بزرگ دیہاتی فردوس چاچڑ نے ہمیں سندھ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی(پی ڈی ایم اے) کی جانب سے بھیجا گیا ایک ایس ایم ایس دکھایا، جس میں مقامی افراد کو ریلیف کیمپس چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی"وہ ہمیں صرف تحریری پیغامات ہی بھیج سکتے ہیں"۔

اس نے شکات کرتے ہوئے کہا" حکومت کے کسی عہدیدار نے یہاں آکر ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اگر سیلاب آیا تو اس سے نقصان سے بچاﺅ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں"۔

دیگر افراد نے اپنی تکالیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پشتوں کو مضبوط کرنا تو شروع کیا ہے مگر وہ اس کام کے معیار سے مطمئن نہیں۔

جب ہم ایک گاﺅں کی جانب آرہے تھے تو ہم نے ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعے پہنچنے والی ریت سے مزدورں کو بند کا دفاع مضبوط کرتے ہوئے دیکھا۔

اسکول کے ہیڈماسٹر محمد بچل نے کہا"اس بند کی بنیادیں تاحال کمزور ہیں"۔

یہاں کے مقامی افراد کو لگتا ہے کہ 2010 میں ٹوری بند میں دانستہ طور پر"شگاف" ڈالا گیا تھا، ان کا کہنا تھا"ہمارے پاس دستاویزی ثبوت ہیں کہ بند میں دانستہ طور پر شگاف ڈالا گیا، ہم نے انہیں انتظامیہ کے سامنے بھی پیش کیا اور قرآن پر حلف بھی اٹھایا، مگر کچھ بھی نہیں ہوا، کسی بھی عہدیدار کو فارغ نہیں کیا گیا"۔

انہوں نے پی ڈی ایم اے کی جانب سے کیمپوں کی موجودگی کے دعویٰ پر بھی سوالات اٹھائے"یہ کیمپس کہاں ہیں؟ ہمیں تو وہ کہیں نظر نہیں آتے، ہم نے سنا تھا کہ انتظامیہ کو فلڈ ریلیف کی مد میں ٹنوں گندم موصول ہوئی تھی مگر ہمیں اس میں کچھ بھی نہیں ملا"۔

کچے کے علاقے کے لوگ حکومت کے ساتھ نجی اداروں کے ریلیف اقدامات پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں اور ان کا الزام ہے" دو ہزار دس کے سیلاب کے دوران حقیقی متاثرین کو کوئی امداد نہیں مل سکی، بلکہ سب فائدہ وڈیروں کو ہی ہوا، منتخب نمائندوں نے امداد کی تقسیم معتصبانہ انداز میں کی"۔

مقامی رہائشیوں نے سیلابی پانیوں کے اوقات میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے اسے موسمیاتی تبدیلی کا ممکنہ اثر قرار دیا، فردوس چاچڑ نے کہا"ماضی میں کچے کو لوگ بتاسکتے تھے کہ کب سیلاب آئے گا، اس وقت گرمی بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی اور ہوا کا نام و نشان نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی سمت بدل جاتی تھی، ایسا اگست میں عروج پر پہنچ جاتا تھا، مگر اب پانی سمتبر میں آتا ہے"۔

جام شورو سے کچھ فاصلے پر موجود ایک گاﺅں گوٹھ جتوئی چاچڑ میں بھی ریاستی تیاریوں پر اسی طرح کے شکوک و شہبات کا اظہار کیا گیا، ایک مقامی شخص عرض محمد چاچڑ کا کہنا تھا"ہم حکومتی تیاریوں سے مطمئن نہیں، بند کو مضبوط کرنے کا کام کافی تاخیر سے اس وقت شروع ہوا جب ہمیں ایڈوانس میں سیلابی پانی کی آمد کی وارننگ ملنا شرع ہوگئی تھی، میں نے اب تک کسی قسم کے ریلیف کیمپس کو بھی نہیں دیکھا"۔

تاہم دوسرے گاﺅں کے رہائشیوں کے مقابلے میں عرض محمد کا ماننا ہے کہ ٹوری بند میں دانستہ شگاف نہیں ڈالا گیا تھا، بلکہ وہ اسے "غفلت" کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔

اس علاقے کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ میں گزشتہ چند روز کے دوران پانی کا بہاﺅ بتدریج بڑھنا شروع ہوا ہے، اگرچہ یہاں کے لوگوں میں تشویش نہیں پائی جاتی اور وہ ریاست کی جانب سے انخلاءکے منصوبے کے منتظر ہیں۔

فردوس چاچڑ کے مطابق"اگر ریاست مناسب تیاریاں کرتی ہیں تو ہم ریلیف کیمپوں میں آئیں گے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اللہ ہماری مدد کرے گا"۔

اگرچہ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب کی صور ت میں کیمپوں کو تیار کرلیا گیا ہے تاہم ضلع کشمور کے اہم شہر کندھ کوٹ اور سکھر کے صحافی بھی کسی ریلیف کیمپ کی موجودگی سے بے خبر ہیں۔

ضلع کشمور کے حکام سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئی جو کامیاب نہیں ہوسکیں۔

مقامی رہائشیوں کے شدید شکوک اور حکومتی تیاریوں کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہوجائے گا جب یا تو دریائے سندھ اپنے کناروں سے نکل کر دور تک پھیل جائے گا یا یہ عظیم دریا سیلابی پانیوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں