اسلام آباد: اگرچہ فی الوقت حکومت کی زیادہ تر توجہ دارالحکومت میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں اور سیلاب کی جانب مبذول ہے، تاہم ایک اور خطرہ بھی حکومت کے سرپر موجود ہے اور وہ ہے انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) برائے پولیو کا اجلاس، جو کہ 30 ستمبر کو لندن میں منعقد ہونے جارہا ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم بی وہ بورڈ ہے جس نے پاکستان میں پولیو کے مرض میں اضافے کے باعث سفری پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی تھی، اور عالمی ادارۂ صحت نے ان پابندیوں کا اطلاق کیا۔

خطرناک بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت آئی ایم بی کی دیگر تجاویز کا اطلاق کرنے میں ناکام رہی ہے۔

تاہم پولیو کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے پروگرام کی نیشنل کو آرڈینیٹر عائشہ رضا فاروق نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم بی کی تمام تجاویز پر عملدرآمد کی اجلاس سے قبل تکمیل کردی جائے گی اور وہ پاکستان کے مؤقف کو اجلاس میں پیش کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔

یہاں اس بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ آئی ایم بی عالمی ڈونر ایجنسیوں کی امداد پر چل رہا ہے اور یہ ہر چھ ماہ بعد ممالک کی کارکردگی کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے۔

نومبر 2012 میں آئی ایم بی نے تجویز دی تھی کہ پاکستان میں پولیو کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث اس پر سفری پابندیاں عائد کی جانی چاہیئیں، جس کے بعد عالمی ادارۂ صحت نے 5 مئی کو پاکستانی مسافروں کے بیرون ملک سفرکی صورت میں پولیو ویکسین لینے کی شرط عائد کردی۔

دو جون کو آئی ایم بی نے اپنی تجاویز جاری کیں، جن کے تحت وزیراعظم کے پولیو سیل کو غیر فعال قرار دیتے ہوئے یکم جولائی 2014 سے قبل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) برائے پولیو قائم کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

تجویز میں کہا گیا تھا کہ ایمرجنسی آپریشن سینٹر( ای او سی) کو چلانے کا اختیار وزیراعظم اور صدر دونوں کے پاس ہونا چاہیٔے۔

آئی ایم بی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستانی حکومت نے 2011ء میں وعدہ کیا تھا کہ دسمبر 2014ء تک پاکستان کو پولیو فری ملک بنا دیا جائے گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی وجہ سے شام، عراق، مغربی کنارے اور غزہ کے علاقوں میں بھی پولیو کا مرض پہنچ گیا ہے۔

دوسری جانب نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پولیو کبھی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ایسی کسی میٹنگ کے بارے میں نہیں سنا جو وزیراعظم نے پولیو کے حوالے سے بلائی ہو، جبکہ مجھے یاد ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں کم از کم حکومت صحت کے شعبے کے حوالے سے کچھ فکرمند تھی اور پولیو کے خاتمے کے حوالے سے ہر ہفتے دو میٹنگز بلائی جاتی تھیں'۔

مذکورہ عہدہدار کے مطابق 'میرے خیال میں ملک میں کوئی قیادت موجود نہیں ہے اور کوئی بھی پولیو کیسز کے حوالے سے ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے، جو 2012ء میں 58 تھے لیکن اب پورے ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 146 تک جا پہنچی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے ڈر ہے کہ لندن میں ہونے والی آئی ایم بی کی دو روزہ میٹنگ میں پاکستان اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے گا'۔

آئی ایم بی نے مجوزہ تجاویز کو یکم جولائی سے قبل نافذ کرنے کے لیے کہا تھا لیکن حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے پاکستان کو اجلاس میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عہدیدار کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ شام اور کیمرون پر سے تو سفری پابندیاں اٹھالی جائیں گی اور صرف پاکستان ہی واحد ایسا ملک رہ جائے گا، جس پر سفری پابندیاں برقرار رہیں گی، کیوںکہ پوری دنیا میں پولیو کے رپورٹ ہونے والے نوّے فیصد کیسز پاکستان میں سامنے آئے۔

دوسری جانب صوبائی پولیو سیل کی ٹیکنیکل کو آرڈینیٹر شہناز وزیر علی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم بی کے اجلاس میں حکومت کو وزیرستان میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب اورآئی ڈی پیز کے معاملے کو اٹھانا چاہیٔے، کیونکہ آنے والے دنوں میں پولیو کیسز میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

تاہم پولیو پروگرام کی نیشنل کوآرڈینیٹر عائشہ رضا فاروق کا کہنا ہے کہ وہ 30 ستمبر کو لندن میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کا دفاع کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈھائی برس سے وزیرستان میں پولیو مہم نہیں چلائی جا سکی۔ دوسری جانب آئی ڈی پیزاور حالیہ بارشوں اور سیلاب نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اجلاس کو بتائیں گی کہ آپریشن ضرب عضب کے باعث ایک نئی امید بیدار ہوئی ہے، کیوںکہ فاٹا کا 80 فیصد علاقہ عسکریت پسندوں سے خالی کرایا جاچکا ہے اور اب وہاں پولیو مہم چلانا بہت آسان ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں