اسلام آباد : حکومت اور تحریک انصاف و عوامی تحریک کے درمیان ایک ماہ طویل سیاسی ڈیڈلاک کے بعد تینوں فریقین نے یہ جنگ شارع دستور سے عدالتوں میں منتقل کردی ہے۔

اس حوالے سے پہلا گولہ حکومت نے داغتے ہوئے دونوں جماعتوں کے سینکڑوں اراکین کو حراست میں اس وقت لے لیا جب پی ٹی آئی ایک بڑے شو کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔

ہفتے ور اتوار کو اپنی تقاریر میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے گرفتار افراد کی رہائی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا اور حکومتی اداروں پر جوابی قانونی حملہ کیا۔

ایک جماعت نے دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ کو چیلنج کیا تو دوسری نے حکومت کو قتل کا ملزم قرار دلانے کی کوشش کی۔

حکومت پہلے ہی پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت کے خالف ایک درجن سے زائد ایف آئی آرز درج کرچکی ہے اور مسلم لیگ ن کے سینیٹر و سنیئر وکیل سید ظفر علی شاہ نے زور دیا ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے گلیوں سے احتجاج کو عدالتوں میں منتقل کردیا ہے" جوکہ ان کی پہلے کی حکمت عملی میں لائی گئی تبدیلی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا"یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے سیاسی انداز میں ہی حل کیا جانا چاہئے"۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے بھی احتجاجی جماعتوں کی حکمت عملی میں تبدیلی کی بات کی ہے"وہ حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے اہداف کو حاصل کرسکیں، حکومتی اقدامات کے خلاف درخواستیں دائر کرنے سے حکومت کے لیے کچھ مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں"۔

جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں، کی رائے بھی یہ ہے کہ مسلسل الٹی میٹم سے کوئی فائدہ نہ ہونے کے بعد پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی اس توقع کے ساتھ تبدیلی کی ہے عدالتوں کے ذریعے کوئی بریک تھرو مل سکے" انہیں حال ہی میں عدالتوں میں دائر کی گئی درخواستوں پر کچھ مثبت نتائج ملے ہیں، میرے خیال میں وہ عدالتوں کو اس معاملے میں ڈال کر کچھ ریلیف حاصل کرنے چاہتے ہیں جو حکومت انہیں دینے کے لیے تیار نہیں"۔

پیر کے روز کا آغاز پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف دائر ایک درخواست میں ہوا، جس کے تحت کسی ایک مقام پر پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہے۔

پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، اراکین قومی اسمبلی عارف علوی، اس عمر اور شفاقت محمود نے اسلام آباد ہائیکورٹ(آئی ایچ سی) میں درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے سات اگست کو دفعہ 144 کے نفاذ کا دائر کیا گیا نوٹیفکیشن غیرقانونی ہے۔

اس نوٹیفکیشن کو ضلعی مجسٹریٹ مجساد شیرل دل نے جاری کیا تھا جس کے خلاف دائر درخواست میں کہا گیا ہے" اسمبلی کی آزادی اور بولنے کی آزادی بنیادی حقوق ہیں"۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹ یآئی نے اسلام آباد کی جانب اپنے پرامن مارچ کا آغاز کیا تھا جو پندرہ اگست کو شہر میں پہنچا، تین پرامن دن کشمیر ہائی وے پر گزارنے کے بعد اسے شارع دستور پر منتقل کیا گیا۔

درخواست کے مطابق تیس اگست کی رات مظاہرین نے وزیراعظم ہاﺅس کی جانب بڑھنا شروع کیا تو پولیس نے خودکار اسلحہ، آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کو اسے روکنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ تیس اور اکتیس اگست کی راتوں کے درمیان متعدد پی ٹی آئی ورکرز اور دھرنے کے شرکا کو اسلام آباد، پنجاب اور آزاد کشمیر پولیس کے حکام نے حراست میں لیا۔

درخواست کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین نے تیرہ ستمبر کو ون نیشن ڈے منانے کا اعلان کیا تو ضلعی مجسٹریٹ نے سیاسی مقاصد کے طور پر ڈبل سواری پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز، ووٹرز، حامیوں اور دھرنے کے شرکاءکو ان کی رہائش گاہوں، ہوٹلوں اور دوران سفر ہدف بناکر حرست میں لیا گیا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ کو غیرقانونی قرار دیا جائے اور قانون نافذ کرنے کوالے اداروں کو پی ٹی آئی کے دھرنے کے شرکاءکو حراست میں لینے سے روکا جائے۔

آئی ایچ سی کے جسٹس اطہر من اللہ آج اس درخواست کی سماعت کریں گے۔

عوامی تحریک بھی پیچھے نہیں رہی اور اس کے ورکرز نے ضلعی و سیشن جج کی عدالت میں درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کو وزیراعظم اور دیگر سنیئر حکومتی عہدیداران کے خلاف تیس اگست کی رات پولیس کے تصادم میں ہلاک ہونے والے مظاہرین کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیں۔

علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پیر کو تیس اگست کو پارلیمنٹ ہاﺅس پر حملے کے الزام میں گرفتار ایک سو دو افراد کو ضمانت پر رہا کردیا۔

اکتیس اگست کو سیکرٹریٹ پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا تھا، پیر کو سماعت کے دوران پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے وکلاءنے دعویٰ کیا کہ پولیس نے بے گناہ افراد کو حراست میں لیا ہے جو پارلیمنٹ ہاﺅس میں حملے میں ملوث نہیں تھے۔

وکلاءکا کہنا تھا کہ پولیس نے ایف آئی آر سے قبل لازمی شناختی پریڈ بھی نہیں کرائی۔

وفاقی حکومت کی نمائندگی ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک فیصل رفیق نے کی اور انہوں نے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پراسیکیوشن کے پاس انہیں اس حملے میں ملوث ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔

تاہم عدالت نے تمام 102 درخواست گزاروں کو ضمانت پر ہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے پچاس ہزار فی کس مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں