دریائے چناب کی مختلف علاقوں کی جانب پیشقدمی جاری

مظفرگڑھ میں سیلاب سے متاثرہ اافراد ایک سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں— رائٹرز فوٹو
مظفرگڑھ میں سیلاب سے متاثرہ اافراد ایک سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں— رائٹرز فوٹو

لاہور/ مظفرگڑھ/ بہاولپور : تحصیل مظفرگڑھ کا ساٹھ فیصد علاقہ غرق کرنے کے بعد دریائے چناب کا غصبناک پانی اب ضلع مظفرگڑھ کی تحصیلوں جتوئی اور علی پور کے دیہی علاقوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

پنجند ہیڈورکس میں میں پانی کے اخراج کی سطح بڑھ رہی تھی تاہم پیر کی رات نو بجے یہ چار لاکھ تیرہ ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی جو کہ قابل انتظام حد تھی۔

پنجند ہیڈورکس پر تعینات محکمہ آبپاشی کے حکام نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں دائیں پشتے پر شگاف ڈالے جانے کا امکان بہت کم ہے، اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا"ہم توقع کررہے ہیں کہ پانی کی سطح دریائے سندھ میں گرنے تک ساڑھے چار لاکھ کیوسک سے زائد نہیں ہوگی جبکہ اس دریا میں سیلاب کی سطح زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ کیوسک ہوگی جو گدو اور سکھر بیراجز سے منگل اور بدھ کو گزرے گا"۔

اس نے بتایا کہ گدو اور سکھر میں اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ قادر آباد اور پنجند کے درمیان پشتوں میں شگاف ڈالے جانے سے کم ہوگیا ہے، جبکہ ان دونوں بیراجز میں پانی کو سنبھالنے کی صلاحیت بالترتیب بارہ لاکھ اور نولاکھ کیوسک ہے، پانچ لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ کا ریلا کوئی مسئلہ نہیں۔

عہددیار کے مطابق تریموں ہیڈورکس میں پانی کی سطح جو پہلے چھ لاکھ کیوسک تک پہنچ گئی تھی اب کم ہوکر ڈیڑھ لاکھ کیوسک رہ گئی ہے۔

مظفرگڑھ میں سیلابی پانی نے تلہیری کے قریب بھٹہ پور کو ڈبونے کے بعد رنگ روڈ کو چھونا شروع کردیا ہے، شہر سلطان کا پشتہ بھی خطرے کی زد میں ہے اور انتظامیہ نے علی پور اور جتوئی کے دیہی علاقوں سے لوگوں کو انخلاءکی ہدایاجات جاری کردی ہیں۔

مظفرگڑھ شہر سمیت ڈالے والا اور لنگر سرائے کے دیہات کے رہائشیوں کے درمیان اس وقت تصادم ہوگیا جب ڈالے والا میں شہر کو بچانے کے لیے لوگوں نے سڑک پر شگاف ڈالنے کی کوشش کی، دیہاتیوں نے اس اقدام کی مزاحمت کی کیونکہ اس ان کے علاقے ڈوبنے کا خطرہ تھا۔

دو ہزار سے زائد دیہاتیوں نے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی پر حملہ کردیا جس پر پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، جمشید دستی اس شگاف کو دیکھنے اور اطلاعات کے مطابق اس کے حامی تھے، جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جیپ کی کھڑکیاں توڑ گئیں، تاہم پولیس کی مداخلت کے بعد جمشید دستی اپنی زندگی بچانے کے لیے موٹرسائیکل پر فرار ہوگئے۔

قبل ازیں ضلعی حکومت نے دوآبہ بند میں ایک شگاف ڈالا تھا جس سے پانی کا رخ ان علاقوں کی جانب ہوگیا جہاں وہ پہلے کبھی پہنچا نہیں تھا، علی پور اور جتوئی کے ساتھ ساتھ خان گڑھ اور شہر سلطان کے قصبوں کو سیلاب سے خطرہ لاحق ہوگیا۔

ڈی سی او کریم بخش نے بتایا کہ مظفرگڑھ شہر اب خطرے کی زد سے باہر ہے کیونکہ سیلابی پانی کا رخ شہر سلطان اور علی پور کی جانب ہے۔

پنجند میں موجود بہاولپور اریگیشن زون کے چیف انجنئیر ملک خورشید زمان نے بتایا"ہم دائیں پشتے میں شگاف نہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، اس وقت پانی کا دباﺅ اوپری پنجند کے اوپر زیادہ ہے، جس سے پشتے پر دباﺅ کم ہوگیا ہے"۔

مظفرگڑھ کی طرح پنجند کے دائیں پشتے کے ساتھ رہائش پذیر افراد بھی شگاف کی مخالف کررہے ہیں، ایم این اے سردار گوپنگ اور بڑی تعداد میں دیہاتیوں نے پنجند کا دورہ کیا اور انتطامیہ سے درخواست کی کہ انتظار کرکے اس حوالے سے مشاورت رائے سے فیصلہ کیا جائے۔

دوسری جانب آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ فوجی جوان ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور مکھن بیلہ، بختیاری اور بیلا جھلاں کے دیہات سے سیلاب زدہ علاقوں کو کیمپوں اور دیگر محفوظ مقامات میں منتقل کیا گیا ہے۔

محکمہ موسمیات نے راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، ڈیرہ غازی خان ڈویژنز، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں چند ایک مقامات پر بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

پیر کو تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1547 فٹ تھی، پانی کی آمد 84 ہزار 300 جبکہ اخراج 54 ہزار سات سو کیوسک تھا، اسی طرح منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1242 فٹ تھی اور وہاں پانی کی آمد 79 ہزار 979 جبکہ اخراج بھی اتنا ہی تھا۔

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اب تک بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 312 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 232 کا تعلق پنجاب، 66 کا آزاد کشمیر اور چودہ کا گلگت بلتستان سے تھا۔

بارشوں اور سیلاب سے بیس لاکھ سے زائدافراد متاثر ہوئے جبکہ صرف پنجاب میں ہی پانچ لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات میں منتقل کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں