مزید جمہوریت

17 ستمبر 2014
نظام لپیٹ دینے اور امپائر کی باتیں کرنے کے بجائے ہمارا مطالبہ صرف مزید جمہوریت ہونا چاہیے، کم جمہوریت نہیں۔
نظام لپیٹ دینے اور امپائر کی باتیں کرنے کے بجائے ہمارا مطالبہ صرف مزید جمہوریت ہونا چاہیے، کم جمہوریت نہیں۔

"جعلی جمہوریت" کی نعرے بازی کرتا مجمع آپ کے سامنے ہے۔ وہ لوگ جو صرف ایک جمہوری مدت کے مکمل ہونے پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پاکستان سے ڈکٹیٹرشپ اور فوجی حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا ہے، انہیں شاید اس ملک کے اچھا کھانے پینے اور پہننے والے لوگوں کی اخلاقی اور عقلی غربت کا اندازہ نہیں ہے۔

ٹوئٹر پر جنگ لڑنے والوں، اور فیس بک پر فلسفہ جھاڑنے والوں کے علاوہ کچھ لوگوں کا گروپ پاکستان کی نوزائیدہ اور مرحلہ وار جمہوریت کے خلاف ایک گانا بھی بنا کر لے آیا ہے۔

فوری استحکام اور آزادی کی ان کی خواہش کو توقعات کے مطابق قومی نجات اور ترقی کے الفاظ میں پیش کیا جارہا ہے۔

وہ تمام لوگ جو عوامی نمائندگی اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی میرے جیسے لوگ، وہ عقلی دلیلوں سے کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

شہری علاقوں میں رہنے والی مڈل اور اپر کلاسوں کے لیے جمہوریت کچھ معنے نہیں رکھتی، اس لیے ان کو نظریاتی اور اخلاقی دلیلیں دینا بیکار ہے۔ ہم نظریاتی طور پر اتنے پسماندہ ہو چکے ہیں، کہ ہمارے معاشرے میں آمریت کو اچھا سمجھا جاتا ہے، اور ہر مسئلے کا حل "ڈنڈے" کو قرار دیا جاتا ہے۔

چلیں تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتے ہیں، کہ حکومت کا کام صرف دو مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔

فرض کیجیے، کہ ان میں سے پہلا مقصد غریبوں کی زندگی میں بہتری لانا ہے، اور دوسرا مقصد پہلے سے کچھ دولت رکھنے والے لوگوں کو مزید دولت دلانا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس حقیقت کو بھول جائیں، کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں کیے جاسکتے۔

پہلے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسی حکومت چاہیے ہوگی، جو منصوبہ بندی کرے، قوانین بنائے، اور ڈیلیور کر کے دکھائے۔ ان قوانین کو کئی دہائیوں تک نافذ کیے رکھنا ہوگا، اور ڈیلیوری کو احتساب کے لیے کھلا رکھنا ہوگا۔ اس طرح کے حکومتی نظام کے اندر ایک ایسا طریقہ کار ہونا چاہیے، جو پہلے مقصد کے حصول میں ناکام رہنے والے لوگوں کو باہر نکال پھینکے۔

اچھا اگرغریبوں کی مدد کیا جانا آپ کے لیے پر کشش نہیں ہے، تو ذاتی دولت میں اضافہ ضرور ہوگا۔ تو دوسرا مقصد حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنی ملکیتوں کو قانونی تحفظ دلانا ہوگا۔ تاکہ لوگ، یا حکومت اچانک سے آپ کی ملکیت کو ہتھیا نا لے۔

طویل مدتی انویسٹمنٹ کرنے سے پہلے آپ کو اس ذہنی تحفظ کی ضرورت ہو گی، کہ حکومتیں اور ان کے ایجنڈے اچانک بغیر کسی نوٹس کے تبدیل نہیں ہوجائیں گے۔ اور اگر آپ کو تھوڑا سا بھی خیال ہوگا، تو آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچے اور ان کے بچے بھی آپ ہی کی طرح اچھی زندگی گزاریں۔

پوری جدید تاریخ میں معاشروں نے ان ہی دو مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کی ہیں، اور اس کے لیے کچھ ناقص اور نامکمل طریقہ کار وضع کیے ہیں۔

17 ہویں صدی کے برطانیہ سے لے کر21 ویں صدی کے چین تک، ان ناقص طریقہ کاروں کو پذیرائی ملی تو اس لیے، کہ ان میں آمریت کا خاتمہ، عوامی نمائندگی کو متعارف کرانا، اور سسٹم میں احتساب لانا شامل ہیں۔

قانونی جواز کے سوالات کو سائیڈ پر رکھیں، تو ڈکٹیٹرشپ کی حامی عوام اتنی کنفیوژ ہے، کہ وہ ایک ایسا نفیس سیاسی نظام تشکیل نہیں دے سکتی، جو آمریت، عوامی نمائندگی، اور احتساب کے مسائل کو حل کرے۔

پچھلے 60 سالوں سے ان کے نزدیک تمام مسائل کا حل صرف یہ ہے، کہ کنٹرول آرمی چیف کے حوالے کر دیا جائے۔

اگر جمہوریت یا 1973 کا آئین موجود نا ہو، تو کیا ہوگا اگر آرمی چیف کے روپ میں ایک رحمدل ڈکٹیٹر حکمران کی اچانک موت ہوجائے؟ کیا ہوگا اگر وہ مشرف کی طرح لبرل ہونے کے بجائے ضیاء کی طرح فاشسٹ ہو؟

پریشان کرنے والی بات یہ ہے، کہ ہم ان حالات سے پہلے بھی گزر چکے ہیں، اور پھر کچھ سالوں بعد دوبارہ ہم ڈرائنگ روم میں اسی بات پر بحث کررہے ہیں، کہ طاقت حاصل اور ٹرانسفر کرنے کا یہ نظام جسے جمہوریت کہتے ہیں، ناکام نظام ہے۔

صرف تھوڑا سا زیادہ سینس رکھنے والے کچھ لوگ یہ دلیل دیں گے، کہ کچھ سالوں تک ملک ڈکٹیٹر شپ کے تحت چلنے کے بعد جمہوریت کے لیے تیار ہوجائے گا۔

اس فارمولے کا ایک خیالی نتیجہ یہ ہے، کہ اس سے ملک کو ان کرپٹ پارٹی لیڈروں سے نجات مل جائے گی، جنہوں نے الیکشنز پر قبضہ کر رکھا ہے۔

لیکن یہ سوچنا کہ طاقت کے زور پر کچھ افراد کو نکالنے سے فرشتہ صفت جمہوری افراد پیدا ہوجائیں گے، تاریخ سے انتہا درجے کی لاعلمی پر مبنی بات ہے۔

اگر ہم ابھی کچھ سیاسی جماعتوں کی حکمرانی جھیل رہے ہیں، تو ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سینکڑوں دوسرے خاندان پچھلے دروازے سے آنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

ان سب دلیلوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹرشپس ان گروپوں سے چھٹکارہ نہیں حاصل کر سکتیں، جو جمہوری نظام میں شراکت داری رکھتے ہیں۔

اقلیتیں، سیاسی جماعتیں، اور سول سوسائیٹی گروپ، کئی وجوہات کی بناء پر یہ جانتے ہیں کہ صرف الیکشن اور ان میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا ہی اپنے مقاصد کے حصول کا واحد طریقہ ہے۔

یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ ہر فوجی حکومت کے دوران چھوٹے صوبوں میں حد سے زیادہ شورش اور عدم استحکام برپا ہوا۔

یہ بھی اتفاق نہیں کہ ڈنڈے کے استعمال کے اپنے تمام تر دعووں کے باوجود ڈکٹیٹرز کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈیلیں ہی کرنی پڑی ہیں۔

کوئی بھی عقل رکھنے والا جمہوری لیڈر اس بات کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی جمہوریت ہمیشہ سے مسائل سے بھری ہوئی ہے۔

اس میں نااہلی، بدعنوانی، شخصیت پرستی، اور اشرافیہ کی طرف جھکاؤ ہے۔ یہ ایک باضابطہ نظام ہے، جو انتخابات اور پارلیمان تک محدود ہے، اور اس میں نمائندگی بہت ہی کم ہے۔

پھر بھی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے، کہ یہی سب سے کم غلطیوں والا نظام ہے، جس سے ریاست پر حکمرانی کرنے کے بنیادی ضابطوں کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ یہی حکومت کا وہ طریقہ کار ہے، جو اندر اور باہر سے کچھ پریشر بنائے رکھتا ہے، اور ترقی چاہنے والے لوگوں کو مقاصد حاصل کرنے کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے۔

اس عدم استحکام کے وقت نظام لپیٹ دینے، اور امپائر کی باتیں کرنا تنگ نظری پر مبنی ہے، اور کسی بھی طرح تعمیری نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ صرف مزید جمہوریت ہونا چاہیے، کم جمہوریت نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ [email protected] twitter: @umairjav

تبصرے (0) بند ہیں