دو ہفتوں بعد دھرنوں کے مقام پر تشدد لوٹ آیا

17 ستمبر 2014
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن— اے ایف پی فوٹو
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن— اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد : دو ہفتوں بعد شارع دستور میں ایک ماہ سے جاری پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے دھرنوں میں تشدد اس وقت لوٹ آیا جب منگل کو حکومت مخالف مظاہرین کا دفعہ 144 کے نفاذ کی کوشش کرنے والی پولیس کے ساتھ تصادم ہوگیا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ تصادم دو گھنٹے تک جاری رہا، جبکہ مظاہرین نے سپریم کورٹ کی عمارت اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا جو عوامی تحفظ کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو گرفتار کررہے تھے۔

ریڈ زون میں حالات میں تناﺅ جمعے سے اس وقت وقت بڑھنے لگا تھا پولیس کی جانب سے نئی پوسٹوں کی تشکیل دینے کے بعد دھرنوں میں شرکت کے لیے آنے والے افراد کو روک کر پوچھ گچھ جبکہ ڈبل سواری کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جانے لگا تھا۔

تاہم منگل کی صبح بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد تصادم ہوگیا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ دھرنے سے مظاہرین کا ایک گروپ نادرا ہیڈکوارٹرز کے قریب کچھ حامیوں کی گرفتاری خبر سن کر باہر نکلا،تو وزیرعظم سیکرٹریٹ کے باہر موجود اہلکاروں نے اس پر لاٹھی چارج کیا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین لاٹھیوں، پتھروں، غلیلوں سے مسلح تھے اور وہ پسپا ہوکر ریڈیو پاکستان کی عمارت کی جانب چلے گئے۔

انہوں نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کے دستے ریڈ زون کے مختلف علاقوں میں تعینات ہیں، تاکہ کسی بھی تنازعے سے نمٹا جاسکے، تاہم کچھ مظاہرین "طوفانی انداز" سے سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے اور وہاں کی لائٹس اور نگرانی کے کیمرے توڑ دیئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی قیادت کی جانب سے دھرنے میں واپس آنے کی درخواستوں کو نظرانداز کردیا۔

بعد ازاں پولیس کی نفری نے وہاں پہنچ کر ان مظاہرین کو سپریم کورٹ سے واپس ڈی چوک پہنچا دیا۔

پولیس نے سپریم کورٹ اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے والے بے نام مظاہرین کے خلاف ایک مقدمہ درج کرلیا ہے۔

پی اے ٹی کے کوآرڈنیٹر غلام علی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان جھڑپوں میں ملوث مظاہرین کا تعلق ان کی جماعت سے ہے" یہ سب پی ٹی آئی ورکرز اور پولیس کے درمیان ہوا، انہوں نے ایک پولیس اہلکار کو ایک کاتون کو چھیڑنے پر پکڑ لیا تھا جس کے بعد جھڑپیں شروع ہوگئیں"۔

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے بتایا کہ ان کی جماعت کے ورکرز گزشتہ چند روز کے دوران بڑے پیمانے پر اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر بہت زیادہ مشتعل ہیں" پولیس گھروں پر چھاپے مار رہی ہے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے نام پر گاڑیوں سے لوگوں کو پکڑ رہی ہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ متعدد گرفتار ہونے والے افراد کو ایک سے دوسرے تھانے منتقل کیا جارہا ہے۔

ان کا اصرار تھا کہ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی ورکرز پر تشدد کیا جانا گزشتہ رات جھڑپوں کی وجہ بنا۔

انہوں نے سپریم کورٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رکن اس میں ملوث پایا گیا تو اسے پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے میڈیا کوآرڈنیٹر چوہدری رضوان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے کارکنوں نے کسی عمارت پر حملہ نہیں کیا"ہمارے کارکن پارلیمنٹ ہاﺅس تک پہنچے تھے جب خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ہمارے رکن صوبائی اسمبلی انہیں واپس دھرنے کے مقام پر لے آئے"۔

تبصرے (0) بند ہیں