عوامی تحریک کا فوج کی حمایت کی کوششوں سے انکار

17 ستمبر 2014
سپریم کورٹ آف پاکستان— فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان— فائل فوٹو

اسلام آباد : پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اپنے مقصد کے لیے فوج کی حمایت کے حصول کی باتوں کی مذمت کرتے ہوئے پی اے ٹی کے ایک وکیل نے سپریم کورٹ کو منگل کو آگاہ کیا ہے کہ اس طرح کے دعویٰ کرنے والے "سیاسی گناہ" کررہے ہیں۔

پی اے ٹی کے سنیئر وکیل علی ظفر کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب الجواب میں ان تین سوالوں کا جواب دیا گیا ہے جو رضا ربانی نے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی(بی این پی اے) اور عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) کی نمائندگی کرتے ہوئے جمع کرائے تھے۔

عوامی تحریک کے جمع کرائے گئے جواب میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی جانب سے " پی اے ٹی یا اس کے قائدین کے بارے میں کیے گئے دعوے غلط ہیں"۔

پی اے ٹی کا کا جواب ایک دن بعد اس وقت آیا ہے جب پی ٹی آئی نے رضاربانی کے سولات کا جواب نہ دے کر اس دباﺅ سے نکلنے کی کوشش کی، جس میں دونوں احتجاجی جماعتوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ مسلح فورسز سے تعاون کی خواہش مند ہیں۔

سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو اے این پی اور بی این پی اے کے خدشات پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، جنھیں شارع دستور میں دھرنے جاری رہنے کی صورت میں غیرآئینی اقدامات کا ڈرہے۔

رضا ربانی نے ان سوالات کو عدالت میں جمع کرایا تھا"کیا کوئی سیاسی جماعت یا گروہ آئینی عہدیداروں کو طاقت اور تشدد کے زور پرہٹا سکتا ہے؟ کیا کوئی سیاسی جماعت مسلح افواج کو اپنے غیر آئینی مقاصد کے لیے دخل اندازی کی دعوت دے سکتی ہے؟ اور کیا کوئی سیاسی لیڈرنجی یا عوامی رابطوں میں افواج پاکستان کی حمایت کو غلط طور پر پیش کر سکتا ہے"۔

اپنے جواب مٰں پی اے ٹی نے کہا ہے کہ اس مطالبات آئینی ہیں اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ متعدد ہائیکورٹ بارز کی جانب سے دائر کردہ پٹیشنز کو خارج کردے، جبکہ ایک سو سوالات پر مشتمل فہرست بھی پیش کی جو ڈاکٹرطاہر القادری اکثر اپنی تقاریر میں حکومت سے کرتے رہتے ہیں۔

عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ وہ مسلح افواج کا بہت احترام کرتی ہے کیونکہ فوجی اہلکار عوام اور ریاست کے تحفط کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے ہچکچاتے نہیں۔

پی اے ٹی کے مطابق اے این پی اور بی این پی اے کی جانب سے فوج کا نام سیاسی بحث میں شامل کرنے کی مبینہ کوشش اس وقت کی گئی ہے جب وہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک کے دفاع اور سیلاب زدہ افراد کی مدد کرنے میں مصروف ہے۔

فوج کا نام حساس معاملات سے دور رکھنے پر اصرار کرتے ہوئے پی اے ٹی کے وکیل نے زور دیا ہے کہ یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ کسی بھی عوامی عہدیدار سے استعفے کا مطالبہ کرسکے، چاہے وہ وزیراعظم ہو، وزیراعلیٰ یا کوئی اور وزیر۔

پارٹی کے وکیل نے مزید کہا کہ تشدد یا طاقت کے استعمال کا کوئی خطرہ نہیں اور ہم یہ بات بار بار واضح کرچکے ہیں کہ ہمارا دھرنا پرامن رہے گا۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی آرمی چیف سے ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے جواب میں کہا گیا ہے کہ پارٹی نے حکومت کی جانب سے آرمی چیف کو بحران کے حل کے لیے مصالحت کار بنانے کی تجویز کو خوش آمدید کہا تھا، ہم نے اس اقدام کو اس یے سراہا کیونکہ ہم مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، مگر وزراءکی جانب سے اس سہولت کے بارے میں بحث نے بحران کے خاتمے کی اس کوشش کو ناکام بنایا۔

تبصرے (0) بند ہیں