استاد امانت علی کو بچھڑے 40 برس بیت گئے

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2014
استاد امانت علی خان — فائل فوٹو
استاد امانت علی خان — فائل فوٹو

انشاجی اٹھو اب کوچ کرو جیسی مشہور زمانہ غزل گانے والے پٹیالہ گھرانے کے معروف گائیک استاد امانت علی خان کو مداحوں سے جدا ہوئے چالیس برس بیت گئے لیکن ان کی دلکش آواز کا سحر آج بھی برقرار ہے.

ملک کے معروف گائیک 1922 کو متحدہ پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد اختر حسین سے حاصل کی۔

کلاسیکی گائیک ہونے کے ساتھ ساتھ استاد امانت علی نے غزل گائیکی کو بھی ایک نیا انداز دیا اور ہلکی پھلکی غزلوں میں کلاسیکی رنگ ڈال کر غزل کی گائیکی کو منفرد بنا دیا۔

استاد امانت علی کو فن موسیقی کی ہر صنف پر عبور حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے گائے ہوئے گانے فن گائیکی میں مثال بن گئے۔

استاد امانت علی خان نے اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کر خیال اور ترانہ کی گائیکی کو انتہائی مہارت سے مقبول کیا، دونوں بھائیوں نے کئی تمغے اور اعزازات اپنے نام کئے۔

جبکہ ان کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ملی نغمہ 'اے وطن پیارے وطن' آج بھی ملک کے دیگر نغموں کی نسبت روز اول کی طرح مشہور اور ہر پاکستانی کا پسندیدہ ہے۔

پٹیالہ گھرانے کا یہ خوبصورت گلوکار 17 ستمبر 1974 کو 52 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملا۔

ان کا نام پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیائے موسیقی کا وہ نام ہے جو برسوں پہلے بچھڑ جانے کے باوجود آج بھی اسی طرح تازہ ہے جیسے چار عشرے قبل تھا۔

استاد امانت علی کے بعد ان کے بیٹے اسد امانت نے اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا، لیکن وہ بھی جوانی میں ہی راہی جنت ہوئے، اسد کا انتقال آٹھ اپریل 2007 کو لندن میں ہوا۔

اب شفقت امانت علی اور رستم فتح علی پٹیالہ گھرانے کے انداز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں