ہنگامی صورتحال میں گمشدہ بچوں کے تحفظ کی پالیسی تیار

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2014
ملتان کے ایک قصبے شیرشاہ میں ایک بچہ تنہا سیلابی پانی میں پھنسا ہوا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
ملتان کے ایک قصبے شیرشاہ میں ایک بچہ تنہا سیلابی پانی میں پھنسا ہوا ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت نے ایسے بچوں کے تحفظ کے لیے ایک پالیسی کو حتمی صورت دے دی ہے، جو ہنگامی حالات میں اپنے خاندانوں سے بچھڑ کر خطرے سے دوچار ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 2010ء کے سیلاب سے اُبھرنے والے بڑے حقائق میں سے ایک یہ تھا کہ خواتین اور بچوں کو خاص طور پر ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تھا اور قدرتی آفات کے موقع پر ردّعمل ظاہر کرنے والا نظام ان چیلنجز سے نمنٹے کے لیے اچھی طرح تیا رنہیں تھا۔

ان حقائق نے این ڈی ایم اے کو اپنے ہی احاطے میں ایک علیحدہ سیکشن کے قیام پر آمادہ کیا۔

خواتین اور بچوں کے لیے قائم کیے گئے اس سیل کے تحت پالیسی اور آپریشنل دونوں ہی سطح پر قدرتی آفات کے دوران کمزور گروپس کی ضروریات پر توجہ دی جائے گی۔

این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر ہنگامی حالات سے نمٹنے کے دوران بچوں کے تحفظ پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اور اس طرح کی پیچیدگیوں اور ملک میں بچوں کے تحفظ کی شدید خلاف ورزیوں کے پیش نظر یہ ضروری ہوگیا تھا ۔

قدرتی آفات سے ناصرف بچوں کے لیے پہلے سے موجود خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ بچے بدسلوکی اور استحصال کی صورتحال کا مزید نشانہ بنتے ہیں۔

نئے اپنائے جانے والے اس معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کے تحت، سماجی بہبود کے تمام محکموں، بچوں کے تحفظ کے یونٹس اورنقلِ مکانی کرنے والے افراد کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو چاہیٔے کہ وہ بچوں کے تحفظ کے مسائل کے حوالے سے کیے جانے والے کاموں میں برادری کے لوگوں کو بھی شامل کریں۔

1121 اور 1122 جیسی ہیلپ لائنز کو بھی فعال بنانا چاہیٔے اور بچھڑ جانے والے یا تنہا بچوں کے بارے میں معلومات برادری کو یا برادریوں کی جانب سے کام کرنےوالے خدمت کے اداروں کو دی جانی چاہیٔے اور اس طرح کے ایک میکنزم کو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مربوط کرنا چاہیٔے۔

اس طرح کے ایک سسٹم کی موجودگی میں برادری کے افراد بچھڑنے والے، تنہا اور دیگر ایسے بچوں کی شناخت کے قابل ہوسکیں گے، جنہیں تحفظ کی ضرورت ہے، خاص طور پر جو محفوظ ہیں، اور انہیں برادری میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

اس پالیسی کے مطابق ایسے بچے جو تنہا ہیں یا بچھڑ گئے ہیں، انہیں فوری توجہ دی جانی چاہیٔے۔یہ بچے وہ ہیں جو ہنگامی صورتحال سے پہلے اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے تھے، ایسے بچے جو بلاارادہ غیرمتعلقہ بالغوں کے ساتھ دیکھ بھال کے انتظامات کے تحت زندگی گزار رہے ہوں، ایسے بچے جو متعلقہ اور غیر متعلقہ بچوں کے ساتھ رہتے ہوں، سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچے، ہسپتالوں میں تنہا زندگی گزارنے والے بچے۔

ایدھی فاؤنڈیشن جیسے اداروں نے اس مقصد کے لیے قابلِ قدر کام کیا گیا ہے، لہٰذا یہ بات بہت اہم ہوگی کہ قدرتی آفات میں بچوں کے تحفظ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک طریقہ کار تیار کرتے ہوئے ان کا تعاون بھی حاصل کیا جائے۔

پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد پیدائشی سرٹیفکیٹ یا اس طرح کی دوسری کوئی دستاویز سے محروم ہے۔چنانچہ ہنگامی صورتحال میں ایسے بچوں کا اندراج اور بعد میں ان کے خاندانوں کی تلاش بہت مشکل ہوجاتی ہے۔

بچھڑنے والے اور تنہا بچوں کے کیسز کے یکساں اندراج کے لیے ایک مرکزی ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، جہاں تمام کیسز کا اندراج ان کے پس منظر کی مکمل معلومات جمع کی جاسکیں۔

بحران کے وقت کے لیے اس ڈیٹابیس کو نادرا کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہیٔے اور لوگوں کو بھی دستاویزات اور قومی ڈیٹابیس میں اندراج کی اہمیت کا احساس کرنا چاہیٔے۔

این ڈی ایم اے کے مطابق فیلڈ مانیٹرنگ وزٹ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا تھا کہ بچوں کی گمشدگی کا مسئلہ بڑے پیمانے پر موجود ہے، اور محض ہنگامی حالت کے دوران ہی نہیں عام حالات میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف کراچی میں 2010ء کے دوران بچوں کی گمشدگی کے تین ہزار انتیس کیسز پولیس میں رپورٹ کیے گئے تھے۔

ایک غیرسرکاری تنظیم ’روشنی‘ کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالات کے ابتدائی مرحلے کے دوران بچوں کی گمشدگی کے واقعات بہت زیادہ ہیں، اس کی وجہ اس مسئلے سے نمٹنے میں کارکنوں کی استعداد اور ہم آہنگی میں کمی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

imranafzal Sep 18, 2014 01:23am
Yes