رودرہیم کا سبق

19 ستمبر 2014
بچوں پر ہونیوالے جنسی تشدد پر ہماری شرمندگی کی سمت غلط ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہم اس کو روکنے کی کوشش نہ کریں-
بچوں پر ہونیوالے جنسی تشدد پر ہماری شرمندگی کی سمت غلط ہے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہم اس کو روکنے کی کوشش نہ کریں-

پچھلے مہینے ایک انتہائی نفرت انگیز خبر شائع ہوئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کے شہر رودرہیم میں 1997 اور 2013 کے دوران 1400 معصوم بچوں کو ایک گینگ نے، جن میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان سے تھا، باقاعدہ طور پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا- اس خبر کو ہم یہ کہہ کر باآسانی نظرانداز کرسکتے ہیں کہ اس جرم کا تعق ہم سے نہیں ہے کیونکہ یہ جرم انگلینڈ کی سرزمین پر ہوا-

لیکن یہ رپورٹ ہمیں اس بات کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنے ملک میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کے بارے میں اپنے رویے کا جائزہ لیں، تاکہ ہم نہ صرف اپنے ملک میں، بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پاکستانی رہتے ہیں، بچوں کی بہتر طورپر حفاظت کرسکیں-

آکسفورڈ اور روش ڈیل کے علاوہ جمی ساویل کیس کے اسی قسم کے اسکینڈلوں کے بعد انگلینڈ میں ایک شدید تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے- نہ صرف یہ، کہ یہ جنسی تشدد کا بدترین واقعہ تھا، بلکہ پولیس اور رودرہیم کونسل نے مدد کے لیے مظلوموں کی پکار پر توجہ نہ دی، جس کے نتیجے میں ان کی مظلومیت میں مزید اضافہ ہوا-

نام نہاد کمیونٹی لیڈروں نے، جو رودرہیم میں رہنے والے تمام پاکستانیوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، پولیس اور کونسل کے اعلیٰ عہدہ داروں کو مجبور کیا کہ وہ اس جرم کو نظرانداز کردیں، تاکہ کمیونٹی کی مصنوعی 'آبرو' محفوظ رہے- اہلکاروں نے ان کی بات مان لی تاکہ ان کی ملازمتیں محفوظ رہیں-

نتیجہ کیا ہوا؟ بچے اس استحصال کا دہرا شکار ہوئے، ایک تو ان کے بزرگوں کی وجہ سے اور دوسرے متعلقہ عہدہ داروں کی وجہ سے۔ انہیں ان افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو نشے میں دھت ہو کر ٹیکسیوں میں آتے، بچوں کا استحصال کرتے، اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے۔ ان میں سے کچھ بچوں کی تو عمریں گیارہ سال تک کی تھیں، اور سفید فام تھے۔ انھوں نے ان بچوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ اس کا ذکر کسی سے کریں گے تو انھیں زندہ جلادیا جائے گا-

برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ ان کا نظام ان معصوم بچوں کی حفاظت کرنے میں کیوں ناکام رہا- اس اسکینڈل نے اس سے بھی زیادہ گہرے اور بدترین سوال کو جنم دیا ہے جس میں نسلی منافرت کا رنگ بھی شامل ہوگیا ہے۔ کیا برطانیہ میں رہنے والے مجرمانہ ذہنیت کے پاکستانی سفید فام کی لڑکیوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جنھیں زیادہ آزادی حاصل ہے اور جن پر ہاتھ ڈالنا اپنی کمیونٹی کی پاکستانی مسلمان لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے؟ آیا یہ کوئی خاص پاکستانی ذہنیت ہے جو ہمیں ان غیر اخلاقی حرکتوں پر اکساتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ واضح طور پر سفید نسل پر ایشیائی تشدد کا واقعہ نہیں ہے- سیاسی مبصرسنی ہنڈال کے مطابق کمسن پاکستانی لڑکیاں بھی اس طرح کے گینگ کا نشانہ بنی ہیں لیکن میڈیا نے اسے نظرانداز کردیا اور اپنی توجہ نشانہ بننے والی سفید فام لڑکیوں کی طرف کردی-

رودرہیم میں رہنے والے پاکستانیوں نے اس جرم کی مذمت کی اور عدالت میں مجرموں کے خلاف شہادت بھی دی- اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس اور رودرہیم کی کونسل کے عہدہ دار سفید فام تھے، چنانچہ پاکستانیوں اور سفید نسل کے لوگوں، دونوں ہی نے، مظلوموں اور ظالموں کا رول ادا کیا اور خاموشی سے سازش میں شریک رہے-

لیکن بے حیائی کے اس واقعے میں اور اس جیسے دوسرے واقعات میں جنسی رویہ اہم رول ادا کرتا ہے- جب ہم اپنا وطن ترک کرتے ہیں، توسفید فام کی عورتوں اور ان تک 'رسائی' کے بارے میں ہمارا رویہ متعصبانہ ہوتا ہے اور جب ہم اس ملک کے کلچر سے جہاں ہم رہائش اختیار کرتے ہیں خطرہ محسوس کرتے ہیں تو اس تعصب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، ہم خود کو سکیڑ لیتے ہیں، خود کو تبدیلی سے بچانا چاہتے ہیں اور اور ان کے کلچر میں ضم ہونا نہیں چاہتے- اگر سفید فام عورتوں تک 'پہنچنا' آسان ہے تو کمسن سفید فام لڑکیوں تک، جو نگراں اداروں میں رہتی ہیں یا گھروں سے بھاگی ہوئی ہوتی ہیں، پہنچنا تو اور بھی آسان ہے-

نسلی تفریق سے ہٹ کر، پاکستان میں ایسے رویوں کی جڑیں بہت گہری ہیں جس کے تحت تمام لڑکیوں اور عورتوں کو لڑکوں کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے اور یہی سب سے پہلی وجہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں سے خراب سلوک کیا جاتا ہے-ورلڈ اکنامک فورم نے حال ہی میں پاکستان کو دنیا بھر میں دوسرا بدترین ملک قرار دیا ہے جہاں عورتوں کو مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں- اگر ہم لڑکیوں اور عورتوں کی قدر کرنے میں، نظریاتی طور پر ہی نہیں عملی طور پر بھی، مسلسل ناکام ہوتے رہیں گے، تو لڑکیاں ہمارے اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی رہیں گی-

ستم ظریفی یہ ہے کہ، عورتوں کی جانب یہ ناروا رویہ پاکستان میں لڑکوں پر بھی جنسی تشدد کی شکل اختیار کررہا ہے جس کا ثبوت ایک حالیہ دستاویزی فلم Pakistan's Hidden Shame ہے- اس کے فلمسازوں، محمد نقوی اور جامی دوراں نے پشاور میں لڑکوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات کا جائزہ لیا ہے، جس میں کمسن لڑکوں کی ایک ہولناک تصویر ابھرتی ہے جو غربت کی وجہ سے سڑکوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں، یا غیر مستحکم گھروں سے بھاگ جاتے ہیں اور جنسی طور پر بیمار ذہنیت کے افراد کی ہوس کا نشانہ بن جاتے ہیں-

اس غلط خیال کی وجہ سے کہ، لڑکیوں کو نشانہ بنانا آسان ہے اور ان کی حفاظت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی نقل و حرکت محدود کردی جائے، لڑکیوں کو گھروں میں رکھا جاتا ہے (گو کہ وہ یہاں بھی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں) جبکہ لڑکوں کو گھومنے پھرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے روزانہ لڑکیوں کی جگہ لڑکے پاکستان کے تمام شہروں کی سڑکوں پر جنسی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں-

پاکستان کے جو لوگ بچوں پر جنسی تشدد کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے وہ یہ کہتے ہیں کہ 'اس طرح کے واقعات زیادہ تر مغرب میں ہوتے ہیں'- لیکن اس رویے کا اثر الٹا ہوگا اور کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کو ہوس کاروں سے بچانا مشکل ہوتا جائے گا- بچوں پر ہونیوالے جنسی تشدد پر ہماری شرمندگی کی سمت غلط ہے۔ حقیقت میں شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہم اس کو روکنے کی کوشش نہ کریں-

پاکستان نے 1991 میں بچوں کے حقوق کے یونیسف کنونشن پر دستخط کیے تھے، لیکن ان حقوق کی حفاظت کے لیے کوئی قانون موجود نہیں- بچوں کے تحفظ کا بل ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوا ہے- اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی حفاظت کریں، جس میں ہماری ناکامی خود ہماری ناکامی ہوگی-

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ


بینا شاہ مصنف ہیں اور ٹوئیٹر پر binashah@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں