دھرنوں کے شرکا کے تحفظ کے لیے مجسٹریٹ نظام بحال

18 ستمبر 2014
اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت— فائل فوٹو
اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت— فائل فوٹو

اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) نے بدھ کو وفاقی دارالحکومت میں مجسٹریٹ نظام کو دوبارہ "بحال" کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے مظاہرین کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔

اسلام آباد ملک کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں مجسٹریٹ نظام ابھی موجود ہے۔

ملک کے دیگر حصوں میں ضلعی انتظامیہ ضلعی کوآرڈنیشن افسران کے زیرتحت اپنے اپنے علاقوں کے امور کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

آئی ایچ سی کے جسٹس اطہر من اللہ نے یہ حکم پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے اس بیان کے بعد جاری کیا جس میں انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ مظاہرین پرامن رہیں گے۔

پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دفعہ 144 کے نفاذ کو چیلنج ایک پٹیشن کے ذریعے چیلنج کیا تھا جس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد جو کہ ضلعی مجسٹریٹ بھی ہیں، کو مجاہد شیردل ہدایت کی کہ دھرنے کے مقام کے لیے مجسٹریٹ کو مقرر کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ بے گناہ افراد یا پرامن مظاہرین کی گرفتاریاں، بے عزتی یا پولیس کی جانب سے حملہ نہ ہوسکے۔

جج نے واضح کیا کہ اس وقت سے ضلعی مجسٹریٹس، اسسٹنٹ کمشنرز اور سب ڈویژنل مجسٹریٹس کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار کی جانب سے اختیار کے غلط استعمال کے ذمہ دار ہوں گے اور عدالت اس معاملے کو بہت "سنجیدگی" سے لے رہی ہے۔

یہ پٹیشن جہانگیر ترین، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور ایم این ایز عارف علوی، اسد عمر اور شفقت محمود کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

درخواست گزاروں نے کہا تھا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز نے دفعہ 144 کا نفاذ پی ٹ یآئی کے حامیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں دھرنے میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ فرخ ڈل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس دفعہ 144 کا غلط استعمال کررہی ہے اور مختلف عوامی و نجی املاک پر چھاپے مار کر پی ٹی آئی ورکرز کو گرفتار کررہی ہے۔

اسلام آباد انتظامیہ کے ایک سنیئر عہدیدار کےم طابق عدالتی حکم کے بعد کمشنر کے دفتر نے ایک ایس ایم ایس تمام مجسٹریٹس، اسسٹنٹ کمشنرز اور سب ڈویژنل مجسٹریٹس کو بھیج کر ہدایت کی ہے کہ وہ پولیس کو مظاہرین کی گرفتاری یا لاٹھی چارج کا حکم نہ دیں۔

ایس ایم ایس کے ذریعے مجسٹریٹس کو کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کوئی پولیس عہدیدار مظاہروں میں شریک کسی فرد کو خود گرفتار نہ کرے، اگر حراست ضروری ہو تو وہ پہلے ضلعی مجسٹریٹس سے اس کی منظوری حاصل کرے۔

عہدیدار نے مزید بتایا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اگست کے وسط سے اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، اس وقت سے ضلعی انتظامیہ سیاسی قیادت کی ہدایات پر کام کررہی ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ نظام کے قوانین کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف متعلقہ مجسٹریٹس کے احکامات پر عملدرآمد کرسکتے ہیںمگر سیاستدان دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ کو دیگر اضلاع کی انتظامیہ کی طرح استعمال کرتے ہوئے براہ راست پولیس حکام کو احکامات دے کر مجسٹریٹس کو سائیڈلائن کردیتے ہیں اور ان کے کردار کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

بدھ کو سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا" دونوں اطراف کی جانب سے بلا سوچے سمجھے کام ہورہا ہے اور کسی ایک کو ذمہ داری اٹھانا ہوگی"۔

کسی کا نام لیے بغیر جسٹس اظہر من اللہ نے پی ٹی آئی رہنماﺅں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا" آپ کی جانب سے بھی شدید رویے کا اظہار ہورہا ہے اگر کسی شخص کو غیرقانونی طریقے سے حراست میں لیا گیا ہے تو عدالتیں انصاف کی فراہمی کے لیے کھلی ہیں مگر آپ نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر انتشار پیدا کیا"۔

جج کی جانب سے بظاہر پیر کی رات کے واقعے کی جانب سے اشارہ کیا گیا تھا جب رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پارٹی ورکرز کو پولیس کی حراست سے چھڑانے کے لیے کوشش کی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلیویژن کی عمارت پر دھاوے، سنیئر سپرٹینڈنٹ عصمت اللہ جونیجو پر حملے اور سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر بدامنی کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان سرگرمیوں میں ملوث افراد نے" آپ کے مظاہروں کا فائدہ اٹھایا ہے"۔

پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ ضلعی مجسٹریٹ اور ان کے ماتحت معتصب ہیں اور پولیس فورس کو سیاسی مقاصد کے لیے مظاہرین کو دفعہ 144 کے غلط استعمال کے ذریعے دبانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے عدالت سے پی ٹی آئی کی پٹیشن کے فیصلے تک ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے جاری دفعہ 144 کے نفاذ کے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کی درخواست بھی کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا"قانون کے مطابق ضلعی مجسٹریٹ امن و امان کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے، ہم پولیس فورس کو اس کا الزام نہیں دے سکتے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جس کا فیصلہ ضلعی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کے تفصیلی جوابات کے تجزیے کے بعد کیا جائے گا۔

اس کے بعد انہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مریم خان اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک فیصل رفیق کو جمعے کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں