سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ

18 ستمبر 2014
شجاع آباد کے قریب شیر شاہ کا ٹول پلازہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ پانی کا ریلا جنوب کی جانب سفر کرتا ہوا نئے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ان علاقوں میں بہت سے لوگ پانی میں پھنسے ہوئے ہیں — اے پی پی فوٹو
شجاع آباد کے قریب شیر شاہ کا ٹول پلازہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ پانی کا ریلا جنوب کی جانب سفر کرتا ہوا نئے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ان علاقوں میں بہت سے لوگ پانی میں پھنسے ہوئے ہیں — اے پی پی فوٹو

لاہور : سیلاب سے متاثرہ صوبے پنجاب میں وبائی امراض کی شرح میں چالیس فیصد جبکہ سانس کے امراض نے متاثرہ افراد کو بڑے پیمانے پر اپنا شکار بنالیا ہے۔

ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سیلاب کے بعد کی صورتحال میں مجموعی طور پر وائرل امراض میں سانس کی بیماریوں کا حصہ تیس فیصد تک ہوسکتا ہے۔

پنجاب فلڈ ریلیف ڈیش بورڈ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق"سیلاب زدہ علاقوں میں سانس کے امراض کے روزانہ پانچ ہزار جبکہ گیسٹرو کے ڈھائی ہزار کیسز سامنے آرہے ہیں"۔

سانس کے امراض سنگین انفکیشن ثابت ہوتے ہیں کیونکہ اس سے صحیح سے سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے، اس کا آغاز عام طور پر ناک ، پھیپھڑوں یا سانس کی نالی میں وائرل انفیکشن سے ہوتا ہے، اور اگر اس کا بروقت علاج نہ کرایا جائے تو یہ پورے نظام تنفس تک پھیل جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں اوسطاً روزانہ پچیس ہزار سے زائد سیلاب زدہ افراد متعدی وائرل و وبائی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

پانی سے پیدا ہوےن والے امراض اور دیگر وائرل انفکیشن کے اثرات سے متعلق محکمہ صحت کی یہ رپورٹ چودہ ستمبر کو وزیراعلیٰ شہباز شریف کو پیش کی گئی جس میں پنجاب میں سیلاب کے بعد نو روز کے دورانیے کا جائزہ لیا گیا ہے۔

فلڈ کنٹرول سیل نے یہ رپورٹ مرتب کی ہے اور ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا" پانی اور مچھروں سے پیدا ہونے امراض سمیت وائرل انفیکشن کا سیلاب کے تین سے چار ہفتوں بعد وبا کی شکل اختیار کرلینا عام ہے"۔

اس نے بتایا کہ یہ پیشگوئی سامنے آئی ہے کہ سیلاب زدہ اضلاع میں آئندہ دو ہفتوں میں امراض کی شرح میں اسی فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے گندے پانی اور مچھروں کی افزائش نسل ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ بروقت اقدامات کے ذریعے "سانحے کے بعد سانحے" سے بچا جاسکتا ہے، صوبے کی بڑی آبادی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے اور نکاسی آب کے نظام کی تباہی کے باعث وائرل اور پانی سے پیدا ہونے والے امراض کے شکار ہونے کے قریب ہے۔

رپورٹ میں دیئے گئے ڈیٹا میں جلدی امراض، بخار اور گیسٹرو کو دیگر بڑے امراض قرار دیا گیا ہے،سیلاب زدہ علاقوں میں لگ بھگ ایک لاکھ اکیس ہزار 990 افراد میں متعدد امراض کی تشخیص ہوئی ہے۔

متاثرین کی بڑی تعداد کو تاحال طبی ٹیموں تک رسائی نہیں مل سکی ہے اور محکمہ صحت کے عہددیاران کو ڈر ہے کہ لوگوں کو بدترین سیلاب کی بناءپر ایک جیسے امراض کا سامنا ہوسکتا ہے۔

سیلاب سے متاثرہ افراد یں 34 ہزار 388 مریض نظام تنفس کے شدید انفکیشن کے شکار ہیں، 32 ہزاقر سے زائد دیگر امراض، 19 ہزار 253 جلدی انفکیشن اور نو ہزار 768 گیسٹرو کے مریض ہیں، سانپوں کے کاٹنے کے 42 واقعات سامنے آئے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ شدید سیلاب نے پنجاب میں طبی انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچایا ہے،مجموعی طور پر 58 بنیادی طبی مراکز، سولہ دیہی طبی مراکز اور تین تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ڈوب چکے ہیں۔

سرکاری املاک کا سب سے زیادہ نقصان جھنگ اور سیالکوٹ اور جھنگ میں ہوا ہے۔

محکمہ صحت نے متاثرہ علاقوں میں تین نگران و وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے سیلز کو تشکیل دیا ہے، جبکہ تبادلوں اور پوسٹنگز پر صورتحال معمول پر آنے تک مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

طبی ٹیموں نے سترہ اضلاع سے پینے کے پانی کے 641 نمونے جمع کرکے انسٹیٹوٹ آف پبلک ہیلتھ و دیگر مقامی لیبارٹریوں کو تجزیے کے لیے بھجوا دیئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں