مردہ بچوں کی پیدائش کی رپورٹس غلطیوں سے بھرپور قرار

18 ستمبر 2014
نجی شعبے کے لیے بھی ایک نظام تیار کیا جانا چاہئے کیونکہ اسی فیصد کیسز نجی کلینکس میں ہوتے ہیں مگر انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا— اے ایف پی فوٹو
نجی شعبے کے لیے بھی ایک نظام تیار کیا جانا چاہئے کیونکہ اسی فیصد کیسز نجی کلینکس میں ہوتے ہیں مگر انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا— اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد : ملک میں مردہ بچوں کی ولادت کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کا نظام غیر موثر ہے جس کے باعث ناقص رپورٹس اور غلط معلومات سامنے آتی ہیں، اس بات کا انکشاف ایک این جی او کیئر پاکستان نے بدھ کو اپنے کردہ اعدادوشمار متعارف کرانے کی تقریب کے دوران کیا۔

اس این جی او نے خیبرپختونخوا اور سندھ کے چار اضلاع کے طبی مراکز میں کرائے گئے ایک سروے کے ذریعے مردہ بچوں کی پیدائش کے کیسز کی غلط رپورٹس کی نشاندہی کی ہے۔

واضح رہے کہ مردہ بچوں کی پیدائش کے لیے اسٹل برتھ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کہ حمل کے اٹھائیس ہفتوں کے بعد مردہ بچے پیدا ہوتے ہیں، زیادہ تر 45 سال اور بیس سال سے کم عمر خواتین میں ایسے کیسز سامنے آتے ہیں جن میں سے بیشتر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

این جی او کے مشیر ڈاکٹر احسن مقبول احمد نے بتایا کہ سروے کے دوران دو نظاموں کا جائزہ لیا گیا ہے، ڈسٹرکٹ ہیلتھ انفارمیشن سسٹم(ڈی ایچ آئی ایس) اور لیڈی ہیلتھ ورکرز منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم(ایل ڈبلیو ایچ ایم آئی ایس) جو کہ مردہ بچوں کی پیدائش کی رپورٹ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ڈی آئی ایچ ایس کو سرکاری طبی مراکز سے ڈیٹا موصول ہوتا ہے جبکہ ایل ایچ ڈبلیو ایم آئی ایس میں برادری کی سطح میں معلومات کو اکھٹا کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا"اگرچہ رپورٹس کو ہر مہینے کے آخری ہفتے میں مرتب کیا جاتا ہے، تاہم سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف اٹھائیس فیصد لیڈی ہیلتھ ورکرز اس معمول پر عمل کرتی ہیں، جبکہ صرف ایک چوتھائی طبی مراکز رپورٹس مرتب کرتے ہیں"۔

ڈاکٹر احسن نے کہا"دوتہائی طبی مراکز اپنی ماہانہ میٹنگز کے مندرجات کو تحریر میں نہیں لاتے اور صرف چودہ فیصد کے پاس ڈیٹا کا معیار بہتر بنانے کا منصوبہ موجود ہے"۔

ان کا کہنا تھا"جب مردہ بچے کی پیدائش ہسپتال کے رجسٹر میں ریکارڈ کی جاتی ہے اور ڈی آئی ایچ ایس کی مرتب تیار کی جاتی ہے تو ہم نے اس کے دوران کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے، ڈی آئی ایچ ایس کے معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بیشتر کیسز کا ڈیٹا گزشتہ تین ماہ کے دوران مرتب ہی نہیں کیا گیا"۔

این جی او کے مشیر نے کہا"اگرچہ میڈیکل افسران اور میڈیکل ٹیکنیکشنز تربیت یافتہ ہیں، تاہم ان مراکز کی انتظامیہ کو رپورٹنگ سسٹم کی کوئی تربیت نہیں دی گئی ہے"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مردہ بچوں کی پیدائش کے اسباب کے ریکارڈ کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں اور لگ بھگ پچاس فیصد عملے کا ماننا ہے کہ اس حوالے سے رپورٹس مرتب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

پالیسی مشیر ڈاکٹر سلیمان قاضی نے کہا کہ اگرچہ رپورٹس کو تیار کیا جاتا ہے مگر سروے کے نتائج کے پیش نظر یہ بات ضروری ہے کہ ضلعی سطح پر اطلاعاتی نظام کو بہتر بنایا جانا چاہئے"نجی شعبے کے لیے بھی ایک نظام تیار کیا جانا چاہئے کیونکہ اسی فیصد کیسز نجی کلینکس میں ہوتے ہیں مگر انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا"۔

انہوں نے کہا"عملے کے اندر اس ڈیٹا کی اہمیت کا شعور اجاگر کیا جانا چاہئے، جبکہ ایسے بچوں کی پیدائش پر ایمرجنسی کے بارے میں پروٹوکول کی بھی وضاحت کی جانی چاہئے"۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے نیشنل ہیلتھ سروسز کی وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ طبی اشاریے شرمناک ہیں اور ملک کے لیے شرمندگی کا سبب ہیں۔

تاہم وزیر نے کہا کہ این جی اوز کو اپنے فنڈز فائیواسٹار ہوٹلوں میں سیمینار اور بریفننگز کے انعقاد کی بجائے دیہی علاقوں میں طبی مسائل پر قابو پانے کے لیے استعمال کرنے چاہئے ۔

انہوں نے کہا"بدقسمتی سے صحت ہماری ترجیحات کا حصة نہیں اور ان سیمینارز میں شرکت لیے دیہات سے آنے والے ہیلتھ افسران کی زیادہ دلچسپی مسائل کے حل کی بجائے اخبارات میں چھپوانے میں ہوتی ہے"۔

انہوں نے کہا"اس طرح کی بریفننگز دیہی علاقوں میں ہونی چاہئے تاکہ لوگ اور میڈیا اس خطے میں جائیں اور وہاں کے مسائل سامنے آسکیں"۔

انہوں نے بتایا"ہم نے اپنے طبی پروگرامز پر نظرثانی کی ہے کیونکہ جنوبی ایشیاءکے دیگر ممالک اس معاملے میں ہم سے آگے ہیں اور وہ اپنے بیشتگر طبی مسائل پر قابو پاچکے ہیں"۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ این جی اوز کو وفاقی سطح پر رجسٹر کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے، اس وقت یہ این جی اوز صوبائی سطح پر رجسٹر ہوتی ہیں اور حکومت کے پاس ان کی سرگرمیوں کی کوئی معلومات نہیں ہوتی۔

ان کے بقول"کابینہ کے اجلاس مٰں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس تک مفاہمتی یاداشتوں پر دستکط نہیں کیے جائین گے جب کہ تمام شرائط و ضوابط پر عملدرآمد نہیں ہوجاتا"۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے چیئرمین سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ شہریوں خاص طور پر خواتین کی صحت حکومت کی ترجیحات میں سب سے اوپر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دیہی علاقوں کی خواتین میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ہے، اگر ماں کی صحت بہتر ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ پوری قوم کی صحت میں بہتری آئے گی"۔

پراجیکٹ منیجر ڈاکٹر عائشہ سحر نے ڈان کو بتایا کہ جن چار اضلاع میں سروے کیا گیا ان میں نوشہرہ، مردان، ٹھٹھہ اور ٹنڈواللہ یار شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا"سروے کے دوران یہ بات دیکھنے میں آئی کہ اضلاع میں تیار کی گئی رپورٹس میں غلطیاں تھیں جنھیں صوبائی حکومتوں کو بھیج دیا گیا"۔

تبصرے (0) بند ہیں