کراچی: ایڈیشنل سیکریٹری برائے تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو نے کہا ’’یہ کنونشن 2013ء میں تیار کیے گئے تعلیم کے حق کے قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں ہے، جس کے تحت پانچ سے سولہ برس کی عمرکے درمیان کے بچوں کو تعلیم دینا ضروری ہے۔ ہم نے تین سے پانچ سال عمر کے بچوں کو نظرانداز کردیا ہے جس کے لیے ہمیں آئین کے آرٹیکل 25-اے کا جائزہ لینا پڑے گا۔‘‘

یہاں منگل کو مقامی ہوٹل میں منعقدہ جنوبی ایشیائی تناظرمیں منعقدہ دو روزہ کانفرنس میں بچپن کی تعلیم (ای سی ای) اور ترقی پر ایک قرارداد اور اعلامیہ کے بعد ڈاکٹر فضل اللہ شرکاء سے خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کانفرنس اور کنونشن کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے اس اعلامیہ میں ترمیم کی جائے۔

فضل اللہ پیچوہو نے کہا ’’ہم نے تین سے پانچ برس کی عمر کے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے والے ٹیچرز کے کیڈر کے لیے سفارشات بھیج دی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس میں گریجویشن اور ای سی ای میں ایک ڈپلومہ کی حامل تمام خواتین ٹیچرز ہونی چاہیٔیں، اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ای سی ای کے لیے اس ملازمت کے لیے تیار کرنے کے لیے ایک انسٹیٹیوٹ کے قیام کی تجویز دی ہے۔

چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے والے ٹیچروں کی بھرتی کے لیے یہ ڈپلومہ کرنا لازمی ہوگا۔

ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو کا کہنا تھا کہ مالی وسائل کی کمی سے نمٹا جاسکتا ہے، لیکن ہم انسانی وسائل کی قلت کے ایک بڑے مسئلے کا سامنا کررہے ہیں۔ ہم نے انسانی وسائل میں سرمایہ کاری نہیں کی ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس میں سرمایہ کاری کریں۔

’’مجھے ٹیچروں کی اصلاح کے پہلو پر ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم نے بہت سے ٹیچرز بھرتی کرلیے، جنہیں میں ٹیچرز ہی نہیں سمجھتا۔ اُن میں ستّر سے نوّے فیصد غیر تربیت یافتہ ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر فضل اللہ کی آنکھیں بھر آئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل کام ہے، اس لیے کہ تیس سال سے اب تک میرٹ پر بھرتی نہیں کی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں تعلیم کا محکمہ روزگار کی فراہمی کا شعبہ بن گیا ہے۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ملینئم ڈیولپمنٹ گول کو حاصل کریں تو ہمیں اس صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا، جو جاری صورتحال میں حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

اس سے پہلے سینئر ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد میمن نے ’’پالیسی سے مشترکہ کارروائی تک‘‘ پر اپنی اہم تقریر کے دوران ابتدائی بچپن کی تعلیم (ای سی ای) سے منسلک مفروضوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اب بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ای سی ای تعلیم کا راستہ ہے۔

ڈاکٹر محمد میمن نے کہا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اشرافیہ کا طریقہ ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ابھی حصولِ تعلیم کے لیے بچے کی عمر بہت کم ہے، اور ابتدائی برسوں میں سیکھنے کے لیے گھر بہترین جگہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں چھوٹا تھا تو میں اسکول اس امید کے ساتھ گیا کہ مجھے دوسرے بچوں کی طرح سیکھنے کو ملے گا، لیکن مجھے ایک ٹیچر نے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔

میں نے اپنی دادی سے اس بارے میں شکایت کی اور ان سے کہا کہ مجھے بھی اسکول میں داخل کروادیں۔

میری دادی مجھے اسکول لے گئیں، لیکن اسکول انتظامیہ نے مجھے داخل نہیں کیا، اس لیے کہ ان کا کہنا تھا کہ ابھی میری عمر کم ہے۔

پھر دادی کے اصرار اور میرے شوق کو دیکھتے ہوئے، اسکول نے میری عمر میں اضافہ کردیا اور مجھے داخلہ دے دیا۔

ڈاکٹر محمد میمن نے کہا کہ آج میری بھی دو چھوٹی پوتیاں ہیں۔ ایک کی عمر چار اور دوسرے کی عمر ساڑھے پانچ سال ہے۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ کم عمری سے ہی اسکول جاتی ہیں۔

وہ سندھی، اردو، انگلش اور پنجابی زبانوں میں بات کرسکتی ہیں۔ ہم سندھی ہیں اور یہ بچیاں پنجابی بھی جانتی ہیں، جسے ہم نے انہیں نہیں سکھایا ہے۔

انہوں نے متحدہ عرب امارات میں اپنے اسکول کے دیگر بچوں کے ساتھ محض بات چیت کے ذریعے ہی یہ زبان سیکھی ہے۔

ڈاکٹر محمد میمن نے ابتدائی بچپن کی تعلیم پر ایک متحرک پالیسی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’لہٰذا ہمیں حقیقت کو تسلیم کرکے مفروضوں سے باہر آنا ہوگا۔ ای سی ای یعنی ابتدائی بچپن کی تعلیم سے سیکھنے کی عادتوں کو باآسانی فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگ جو ای سی ای کا پس منظر رکھتے ہیں، آسانی کے ساتھ اعلٰی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اگرچہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء ای سی ای کے کردار کو تسلیم کرتی ہے، پھر بھی اس کے لیے ایک واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔‘‘

اس سے پہلے اس کانفرنس کے آخری روز کا آغاز تحقیق و تشخیص پر ایک اجلاس سے ہوا، جس میں ہندوستان کے اے ایس ای آر، مرکز برائے ابتدائی بچپن کی تعلیم (انڈیا) اور موبائل دارالاطفال (انڈیا) کے نمائندوں نے اپنے کیس اسٹڈیز کے بارے میں بتایا۔

اختراعات کے موضوع پر ایک دوسرے اجلاس میں، مواد، رسائی اور والدین پر نیپال میں اپنائی گئی اہم تکنیک پر روشنی ڈالی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں