حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی سے مطمئن

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2014
وزیراعظم نواز شریف— فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف— فائل فوٹو

وزیراعظم نواز شریف کے ان دلیرانہ الفاظ" یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں" سے قطع نظر، ان کی حکومت اس معاملے میں الجھن کا شکار ہے کہ ڈی چوک کو عمران خان کے "ٹائیگرز" اور ڈاکٹر طاہر القادری کے عقیدت مندوں سے طاقت کے زور پر خالی کرایا جائے یا سیاسی طریقے سے۔

اسی جبری انتخاب کو پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کے سامنے بدھ کی سہ پہر اس وقت پیش کیا گیا جب وزیراعظم اٹک میں اپنے اوپر درج کیا گیا دلیرانہ بیان دے کر اسلام آباد واپس آرہے تھے۔

حکومتی اتحادی پختونخوا ملی عوامی پارٹی(پی کے میپ) کے محمود خان اچکزئی اور جمعیت علمائے اسلام فضل گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم پولیس کو مارچ کے احکامات دیں، تاہم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے حکومت کو کسی بھی سخت فیصلے پر خبردار کیا۔

اندرونی ذرائع کے مطابق جمہوری نظام کو سیاسی احتجاج سے بچانے کے لیے دفاع مضبوط کرنے میں مصروف وزیراعظم نواز شریف، ایسے فرد کی طرح نظر آرہے ہیں جو شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان پھنس گیا ہو، اور پارلیمانی سربراہان کے اجلاس کا ماحول بھی کسی فوجی جنرلز کی میٹنگ کا لگ رہا تھا جو کسی جنگی کمرے میں حکمت عملی مرتب کررہے ہوں۔

سیاسی منصوبہ بندی میں شامل اندرونی ذرائع نے بتایا کہ کچھ شرکاءنے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر متحد رہنے اور 'غیر جمہوری عناصر کو باہر بیٹھے رہنے' کا مشورہ دیا۔

دیگر نے حکومت کو یاد دلایا کہ 'جارحیت ہی بہترین دفاع ہوتی ہے"، تاہم چند ایک ہی اس بات کے خواہشمند تھے کہ حکومت 'گوریلا جنگ' کی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے ورکرز کو گرفتار اور ہراساں کرے۔

اس حکمت عملی کو پنانے سے ابھی کوئی حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آئے جس کی وجہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر عدالتی فیصلے تھے، تو پھر کئی جماعتوں کے سربراہ کس فیصلے پر متفق ہوئے؟

مسلم لیگ ن کے ایک سنیئر کابینہ وزیر نے ڈان کو تصدیق کی "ڈی چوک کو طاقت کے زور پر کلئیر کرانے" کی بات ہوئی تاہم رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ اب اس حوالے سے بہت دیر ہوچکی ہے۔

اس کے علاوہ اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ اس طرح کے اقدامات سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے احتجاج کی آگ مزید جل اٹھے گی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سے اس دباﺅ میں اضافہ ہورہا ہے کہ احتجاجی جماعتوں کے خلاف "کچھ ایکشن" کیا جائے۔ وزیر نے بتایا"طاقت کے استعمال سے ہلاکتوں کا امکان ہے جس کی حکومت اس وقت متحمل نہیں ہوسکتی، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم حکومتی رٹ اور ساری دنیا میں ہماری شرمندگی کا سبب بننے والے اس چیلنج کو نظرانداز بھی نہیں کرسکتے"۔

وزیرعظم نواز شریف لگتا ہے کہ اس دہری مشکل میں پھنس چکے ہیں اور ان کی حکومت نے اس وقت طاقت کے استعمال کا موقع کھودیا جب حکومت مخالف مظاہرین نے ریڈ زون کی جانب دھاوا بولا تھا۔

وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہونے اور جمہوری نظام کے دفاع کے اپنے عوامی بیانات کے باوجود کیا اس بات کو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں حکومت کی جانب سے احتجاجی تحریک کے خاتمے کے لیے اپنائے جانے والی کسی بھی حکمت عملی اور آپشن کی بھی حمایت کریں گی؟

وزیراعظم مسلسل پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتیں کررہے ہیں اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہورہے ہیں، ان کے اتحادی پارلیمنٹ کے جاری مشترکہ اجلاس میں "سیاسی سرکس" کے خالف پولیس یا فوج کے استعمال کی منظوری کی قرارداد کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

ن لیگ کے ایک عہدیدار نے بتایا"جی ہاں حکومت اس بات کو پسند کرے گی کہ پولیس یا فوج کے استعمال کے ذریعے دارالحکومت میں حالات معمول پر لانے کی متفقہ قرارداد کی منظوری دی جائے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا"۔

اس وقت حکومت کو جو بہترین آپشن دستیاب ہے وہ "دیکھو اور انتظار کرو" ہے، کیونکہ گلیوں میں حکومت کو چیلنج کرنے والے فرسٹریشن کا شکار ہیں جبکہ پارلیمنٹ وزیراعظم کے پیچھے ہے، ان حالات میں نواز شریف اس آپشن کے متحمل ہوسکتے ہیں۔

ن لیگ کے عہدیدار نے کہا"پی اے ٹی اور پی ٹی آئی ورکرز کی گرفتاریوں نے ان کی سرد ہوتی ہوئی آگ کو پھر گرم کردیا مگر ڈی چوک کے دھرنوں کی کیمپ فائر پہلے جتنی روشن نہیں رہی ہے"۔

عمران خان مرکزی محاذ کو چھوڑ کر جائیں گے چاہے وہ یہ جنگ ملک کے دوسرے حصوں تک پھیلانے کے لیے ہی کیوں نہ جارہے ہوں اور ڈاکٹر طاہر القادری کی صفوں میں واضح کمزوری نظر آرہی ہے۔

کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم نے اپنی حد تک ہر ممکن بہترین کوششیں کرکے یہ صورتحال پیدا کی اور اب اپنی حکومت معمول کے مطابق چلارہے ہیں۔

رواں ماہ کے آخر میں نیویارک جاکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ اس بات کا واضح اظہار کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں