دھرنے، عوام اور امید کی ہار

20 ستمبر 2014
یہ میچ بھلے ہی جتنا بھی عرصہ جاری رہے، پر اس میں کھیلنے والے اور دیکھنے والے سب ہی ہارنے والے ہیں۔
یہ میچ بھلے ہی جتنا بھی عرصہ جاری رہے، پر اس میں کھیلنے والے اور دیکھنے والے سب ہی ہارنے والے ہیں۔

اگر سیاست میں سے امیدوں اور معصومیت کو نکال دیا جائے، تو کچھ خاص باقی نہیں بچتا۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں ہم نے روزانہ کی سیاسی مہم جوئی میں لاکھوں لوگوں کی امیدوں اور توقعات کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔

ہزاروں لوگ ایک ناکارہ اور سمجھوتوں پر چلنے والی اسٹیبلشمنٹ، جو قتل کا مقدمہ تک درج نا کر سکی تھی، کے خلاف مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے۔

جبکہ کچھ اور ہزار لوگ اسلام آباد اس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آئے، جو انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات بھی نہیں کر سکی۔

ان سب کے علاوہ وہ لوگ بھی ہیں، جنہوں نے سوچا تھا کہ ایک مضبوط اور بے مثال مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم واقعی نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے۔

اسلام آباد کے ڈی چوک پر جاری سیاسی ڈیڈ لاک کسی نتیجے کی جانب نہیں بڑھ رہا۔ یہ میچ بھلے ہی جتنا بھی عرصہ جاری رہے، پر اس میں کھیلنے والے اور دیکھنے والے سب ہی ہارنے والے ہیں۔

اس ملک کے نوجوانوں کے دل و دماغ میں اگر کوئی امید باقی تھی، تو اس اوٹ پٹانگ ڈرامے نے وہ بھی ختم کردی ہے۔

نوجوان جان چکے ہیں، کہ ان کی مشکلات دور کرنے کے لیے کوئی مسیحا نہیں آنے والا، بلکہ صرف اپنی انا اور ذاتی مفادات کے غلام کچھ لوگ ہی ان کی قیادت کے لیے آگے آئیں گے۔

آخر کسی نے یہ سوچا بھی کیسے، کہ وہ ڈی چوک سے فتح یاب ہو کر باہر آئے گا۔ میاں نواز شریف کے چاہنے والے، اور پارلیمنٹیرین اب اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہے، کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ بازی پلٹ چکی ہے۔ انہیں عمران خان اور طاہر القادری سے کوئی خطرہ نہیں تھا، بلکہ انہیں صرف ملٹری کا ڈر تھا۔


پڑھیے: اجتماعی سیاسی قبر


اور جس دن سے یہ بات واضح ہوئی، کہ 111 بریگیڈ کا پی ٹی وی یا وزارت خارجہ کی دیواریں پھلانگنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تب سے لیگیوں اور باقی پارلیمینٹیرنز کی جان میں جان آئی، اور ان کی آوازیں واپس بلند ہوئیں۔

لیکن اس سب سے ہٹ کر کچھ لوگ وہ بھی ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ سول اور ملٹری اشرافیہ نے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ انہیں عمران خان اور طاہر القادری کی صورت میں تبدیلی اور نجات نظر آتی ہے۔

اس بحث سے قطع نظر کہ کس قدر لوگ اس مارچ اور دھرنے میں شریک تھے، یہ بات واضح ہے کہ ملک کے کروڑوں عوام اب اسٹیٹس کو سے تنگ آچکے ہیں۔

وہ جسمانی طور پر کہیں بھی ہوں، پردلی اور ذہنی طور پر وہ پورے ملک میں دھرنے دے رہے ہیں۔

دن ہفتوں میں بدلتے رہے، اور ہفتے مہینے میں بدل گئے۔ ڈی چوک پر احتجاجیوں کی تعداد میں بھی کمی آتی گئی، اور احتجاجوں کی شدت میں بھی۔ آئے دن کنٹینروں کے اوپر سے نئے نئے مطالبات کیے جاتے رہے، اور مظاہرین کو نئی نئی ہدایات جاری کی جاتی رہیں۔

سول نافرمانی، ٹیکسوں اور بلوں کی عدم ادائیگی، منی لانڈرنگ، اور ریاستی اداروں میں توڑ پھوڑ مچانے کے احکامات سے یہ اچھی طرح پتہ لگ گیا ہے، کہ ان دونوں لیڈروں کی سیاسی فہم و دانش کتنی گہری ہے۔

اس سب کی وجہ سے معاشرے میں جانبداری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ قوم کے درمیان پڑنے والی ان دراڑوں کو مزید گہرا کرنے کے لیے نیوز میڈیا کو بھی استعمال کیا گیا، جہاں حد سے زیادہ جانبدار مؤقف اور نظریات کا پرچار کیا جاتا رہا۔ کچھ ٹی وی چینلوں نے حکومتی ترجمان کی ذمہ داری نبھائی، جبکہ کچھ نے عمران خان کی ترجمانی کو اپنا فرض سمجا۔


مزید پڑھیے: تجزیوں کا بخار


کچھ نیوز چینلوں کی رپورٹنگ اتنی جانبدار ہے، کہ 24 گھنٹے ساتوں دن چلنے والی ان خبروں سے طبیعت خراب ہونے لگی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں سیاسی سرکس چل رہا ہے، تو باقی کی دنیا ترقی کی جانب گامزن ہے۔ 70 کی دہائی کے بعد پاکستان اور ترقی یافتہ دنیا کے درمیان ترقی کا فرق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں، کہ پاکستان کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے کیا ہی کیوں جائے؟

چلیں ٹھیک ہے، پاکستان کا موازنہ افریقہ اور ایشیا کی ترقی پذیر قوموں سے کر لیتے ہیں؟

لیکن اس سے بھی ہم انسانی ترقی کے لیے کیے گئے اپنے ناکافی اقدامات کو کافی دکھانے میں ناکام ہی رہیں گے۔ بھلے ہی بنگلا دیش کو قدرتی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے، لیکن اس کی ترقی کی شرح پھر بھی پاکستان سے زیادہ ہے۔ بلکہ یہ کہا جانا چاہیے، کہ پاکستان تو بنیادی چیلنجز سے نمٹنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

خوراک کی کمی سے پاکستانی بچے بڑی تعداد میں متاثر ہورہے ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ متاثر صوبہء سندھ ہے۔ ایران اور بنگلادیش اپنے آبادی کے مسائل پر قابو پاچکے ہیں، لیکن پاکستان اب بھی بڑھتی ہوئی آبادی روکنے میں ناکام ہے۔

شرحِ خواندگی دنیا بھرمیں آخری نمبروں پر ہے۔ اور اب تو پاکستان پوری دنیا میں پولیو ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ پولیو پر جہاں دوسرے ممالک قابو پاچکے ہیں، وہیں پاکستان میں یہ ابھی تک سر اٹھائے ہوئے ہے۔

پاکستانیوں کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

وہ یہ سوچ رہے ہیں، کہ اگر بھاری مینڈیٹ لے کر بھی گورننس میں بہتری نہیں لائی جارہی، اور اگر لانگ مارچ اور دھرنے بھی تبدیلی لانے میں ناکام رہے ہیں، تو پر امید رہنے کے لیے کیا وجہ باقی رہی ہے؟


مزید پڑھیے: تماشا، تماشائی اور مداری


جب دھرنے اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گے، تو لوگ یہ بحث کریں گے، کہ شکست کسے ہوئی۔

اور یہ شکست نا نواز شریف کی ہوگی، نا طاہر القادری، اور نا ہی عمران خان کی۔

بلکہ یہ پاکستان میں امید کی شکست ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔


مرتضیٰ حیدر تدریس سے وابستہ ہیں، اور Regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Danish Sep 20, 2014 02:08pm
اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ پاکستان کے عوام کی ہار ھا
Muhammad Zahid Khanzada Sep 21, 2014 08:31am
aap ne column bohot acha likha hey....lekin agar kisi k sath na insafi ho....tau kiya wo ehtjaj ka haq b na rakhay???? aap ney "ANA" ki baat ki ...agar apka ishara imran khan ki taraf hey tau ap he iska faisla karen k kiya "electoral reforms" ki baat unho ney 14 months se repeatedly kaheen....may yeh samajhta hon k agar kisi b insaan may kam se kam ye ehsas b mojod hey k agar us k sath na insafi huwe hey aur wo protest krey.....tau samajhen k wo inshaALLAH kabhi nahi harey ga.....