دختر کے معنی بیٹی کے ہیں اور فلم کا ٹائٹل اپنی کہانی آپ بیان کرتا ہے۔ یہ فلم عافیہ نتھانیل نے بہترین انداز میں ڈائریکٹ کی ہے۔ کہانی ایک ماں اور اس کی 10 سالہ بیٹی کے گرد گھومتی ہے، جو بچی کی کم عمری میں شادی سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگ نکلنے میں تو کامیاب ہو جاتی ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ خطروں سے بھرپور ایک سفر ان کا انتظار کر رہا ہے۔

لیکن ٹائٹل سے ایک چیز واضح نہیں اور وہ ہے ڈائریکشن کی نفیس باریکیاں۔ پاکستان کے بے حد خوبصورت شمالی علاقوں سے لے کر شہرِ لاہور تک کے مناظر کو کمال ہنرمندی سے فلمایا گیا ہے، جبکہ اداکاری نے اس پوری فلم میں جان ڈال دی ہے۔

یہ سب کچھ اور ایک بہترین کہانی مل کر 'دختر' کو واقعی دیکھنے لائق فلم بناتے ہیں۔


کہانی پاکستان کے شمالی علاقے کے ایک دور دراز اور قدامت پسند گاؤں سے شروع ہوتی ہے، جہاں صرف امن قائم کرنے کے لیے 10 سالہ زینب کا باپ اس کا رشتہ دوسرے قبیلے کے ایک عمر رسیدہ سردار سے طے کر دیتا ہے۔

شادی والے دن زینب (صالحہ عارف) اور اس کی ماں اللہ رکھی (سمیعہ ممتاز) گھر سے بھاگ نکلتی ہیں اور دشوار گزار پہاڑی راستوں میں گرتے پڑتے مدد کی تلاش کرتی ہیں کہ ان کا سامنا ایک سخت مزاج ٹرک ڈرائیور (محب مرزا) سے ہوتا ہے، جو انہیں مدد فراہم کرتا ہے۔

ان کے خون کے پیاسے قبائلی غنڈے بھی ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں تاکہ قبیلے کی عزت کو بچایا جاسکے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

یہ کہانی تو ہم سب پہلے بھی سن چکے ہیں۔ دور دراز دیہاتوں، یہاں تک کہ ہمارے ماڈرن شہروں میں بھی کہیں کہیں کم عمر بچیوں کی اپنے سے کہیں بڑے مردوں سے شادی کردینے کا رواج عام ہے اور یہی وہ تلخ حقیقت ہے، جو دختر کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔

فلم کی کاسٹ نے اس کے پلاٹ میں روح پھونک دی ہے, سمیعہ ممتاز اور صالحہ عارف، جنہوں نے بالترتیب ماں اور بیٹی کا کردار ادا کیا ہے، واقعی ستارے ہیں۔ فلم میں ان دونوں نے اپنا کردار ناقابل یقین حد تک حقیقی روپ میں ادا کیا ہے جبکہ ایک قبائلی غنڈے کی صورت میں عدنان شاہ نے بے حد متاثر کن کردار ادا کیا ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

لیکن کاسٹ میں ایک کمزوری ہے اور وہ ہیں محب مرزا۔ اپنے بناوٹی پنجابی لب و لہجے، اور اپنے چمکدار سیدھے بالوں کے ساتھ وہ کہیں سے بھی ایک ٹرک ڈرائیور کے روپ میں موزوں نہیں لگتے۔

اگر محب مرزا کی جگہ کسی اور اداکار کو لیا جاتا تو شاید یہ کردار اور بھی بہتر ہوسکتا تھا۔ محب اپنی کمرشل کشش کی وجہ سے دیکھنے والوں کی تعداد میں تو اضافہ کر سکتے ہیں، لیکن وہ ان کی توجہ بنائے رکھنے میں مددگار نہیں ہوں گے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

اس کے علاوہ کمرشلزم کی جانب ہلکے سے جھکاؤ نے پلاٹ کو کہیں کہیں کمزور کیا ہے۔

فلم کا پہلا حصہ ایک ماں کی اپنی بیٹی کے لیے بے پناہ محبت، مردوں کے معاشرے کی سختیوں سے بچنے اور اس دوران پیش آنے والے ایڈونچر اور ہمت و عزم کے گرد گھومتا ہے۔

لیکن دوسرے حصے میں کہانی ٹرک ڈرائیور اور ماں کے درمیان بار بار کے غیر موزوں فلرٹ اور محبت بھری نگاہوں کی طرف آجاتی ہے، جس سے یہ حقیقت سے تھوڑی دور معلوم ہوتی ہے۔

رومانس کی جانب جھکاؤ شاید کہانی کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے رکھا گیا ہوگا، لیکن مردوں کی بالادستی سے بچنے کی کوشش میں سرگرداں ماں اور بیٹی کی کہانی میں ایسے محبت بھرے مناظر ڈال کرعافیہ نے مرکزی پلاٹ کو کمزور کر دیا ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

مجموعی طور پر رائٹر، ڈائریکٹر اور کو پروڈیوسر عافیہ نتھانیل نے دختر کی پروگریس تیز رکھی ہے جبکہ بیچ بیچ میں خوشی بھرے مناظر، ٹوئسٹ، ٹرن اور ڈائیلاگ بھی شامل کیے گئے ہیں۔ فلم میں شاید ہی کوئی سین ضرورت سے زیادہ کھینچا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو باآسانی بورنگ ہوسکتی تھی۔

فلم میں کوئی بھی ڈپریسنگ اور حوصلہ شکن قسم کے سین نہیں ہیں۔ بھلے ہی ہم سب یہ کہانی پہلے بھی سن چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ فلم دلچسپی بنائے رکھتی ہے۔ ٹینشن اور جذبات سے بھرپور پہلا حصہ تو خاص طور پر ناظرین کی توجہ اپنی جانب قائم رکھتا ہے۔

کہانی میں قدرت کے حسین مناظر کی شمولیت نے فلم کی دلچسپی میں اور بھی اضافہ کیا ہے۔ سنیماٹوگرافی کی خصوصیت ندیوں، ہرے بھرے میدانوں اور شمالی علاقوں کے خوبصورت پہاڑی سلسلوں کی بہترین عکسبندی ہے۔ کچھ مناظر کہیں کہیں دھندلائے ہوئے لگتے ہیں لیکن شاید یہ ان مناظر کو مزید متاثر کن بنانے کے لیے دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔

ظاہری طور پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ فلم بہت تھوڑے عرصے میں مکمل کی گئی تھی، لیکن کہیں سے بھی یہ جلدبازی میں کیے گئے کام کا تاثر نہیں دیتی۔ یہ ایک ایسی فلم ہے، جو جذبے، خلوص اور ذہانت کے ساتھ فلمائی گئی ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

ساحر علی بگا کا ساؤنڈ ٹریک زبردست ہے۔ راحت فتح علی خان کی آواز میں یا رحم، مولا مولا اور شفقت امانت علی کی آواز میں جینے چلے، بلاشبہ یادگار گانے ہیں۔ لیکن ایک خامی ہے وہ یہ کہ مناظر کے دوران گانے کچھ سیکنڈوں کے بجائے زیادہ دیر تک چلتے ہیں۔

لیکن یہ تنقید معمولی نوعیت کی ہیں، مجموعی طور پر دختر ایک پر لطف فلم ہے جو آپ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن اپنی یکسانیت سے دیکھنے والوں کو بور نہیں کرتی۔

فلم حال ہی میں ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی تھی لیکن یہ دستاویزی اسٹائل میں بنائی گئی کوئی فیسٹیول فلم نہیں ہے۔ عافیہ نے آرٹ اور کمرشل سنیما کو ایک ساتھ لانے کی کوشش کی ہے، جس سے پلاٹ کمزور ہو جاتا ہے مگر اس سے دیکھنے والوں کو ضرور مزہ آئے گا، ورنہ شاید فلم زیادہ ہیوی ہوجاتی۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ دختر نے مذہب، دہشتگردی اور انتہاپسندی کے حوالے دینے سے پرہیز کیا ہے۔ بھلے ہی یہ باتیں سچ اور حسبِ حال ہیں لیکن اب انہیں پاکستان اور پوری دنیا میں بہت دفعہ فلمایا جاچکا ہے۔

اس کے بجائے فلم بغیر کسی قبیلے کی طرف اشارہ کیے اپنی پوری توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب رکھتی ہے، اچھے اور برے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے اور اس کا اختتام آپ کی خوشی میں ہوگا۔

پاکستانی سنیما کی بحالی کی بات کی جائے تو 'دختر' بلاشبہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک مضبوط پلاٹ، دل پذیر میوزک، بہترین اداکار اور ایک بے مثال ڈائریکشن کے ساتھ دختر کا جھکاؤ نہ ہی بولی وڈ کی جانب ہے اور نہ ہی ہولی وڈ کی جانب، اور اسے کسی کی جانب جھکاؤ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اپنی تمام تر خوبیوں اور کچھ خامیوں کے ساتھ یہ ایک مکمل طور پر پاکستانی فلم ہے، جسے پاکستانی نکتہ نگاہ سے پیش کیا گیا ہے۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

saman aref Sep 20, 2014 11:40pm
Dukhtar s zainab is my daughter, but I viewed it as an audience and found Saleha at her best. She's done the job very well and the credit goes to Afia ,Samia ,Mohib and the entire cast and crew who treated my daughter as their own dukhtar. Thanks Afia and team Dukhtar. You have given Saleha a lifetime memory.