شکیل اوج قتل، جامعہ کراچی کے تین اساتذہ سے تفتیش

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2014
جامعہ کراچی شکیل اوج کے قتل پر جمعہ کے روز بند رہی ۔۔۔۔ فوٹو ۔۔۔ آن لائن
جامعہ کراچی شکیل اوج کے قتل پر جمعہ کے روز بند رہی ۔۔۔۔ فوٹو ۔۔۔ آن لائن
پروفیسر شکیل اوج جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامی کے سربراہ تھے ۔۔۔ فوٹو ۔۔۔ پی پی آئی
پروفیسر شکیل اوج جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامی کے سربراہ تھے ۔۔۔ فوٹو ۔۔۔ پی پی آئی

کراچی:جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے سربراہ پروفیسر شکیل اوج کے قتل پر انہی کے شعبے سے وابستہ اساتذہ سے پولیس نے تفتیش کی ہے۔

مقتول پروفیسر کو ان کے خیالات کی وجہ سے لبرل مانا جاتا تھا ان پر توہین مذہب کے الزام کا ایک ایس ایم ایس بھی چلایا گیا تھا۔

54 سالہ شکیل اوج جامعہ کراچی کے کلیہ معارف اسلامی کے ڈین تھے، ان کے خلاف چلائے جانے والے ایس ایم ایس میں ان کو مرتد قرار دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسلام کی تعلیمات کا مذاق اڑانے پر وہ واجب القتل ہیں۔

ان کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے مسلم عورت کی کسی غیر مذہب کے شخص سے شادی اور لپسٹک و نیل پالش کے ساتھ نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا تھا۔

ان کو جمعرات کے روز اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ایرانی کلچر سینٹر میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

شکیل اوج کی جانب سے ان کے خلاف ایس ایم ایس چلانے والے افراد کے خلاف دو سال سے قانونی چارہ جوئی شروع کی گئی تھی۔

پولیس کے سینئر افسر پیر محمد شاہ نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ پولیس اس وقت تین پروفیسرز سے تفتیش کر رہی ہے، یہ تینوں شکیل اوج کے ہمراہ تدریس سے وابستہ تھے جبکہ ان پر ہی وہ ایس ایم ایس چلانے کا الزام ہے۔

پولیس کے زیر تفتیش افراد میں کلیہ معارف اسلامیہ کے سابق ڈین عبدالرشید، شعبے کے دیگر اساتذہ نصیر احمد اختر اور عبید احمد خان شامل ہیں جبکہ ایک اور ملزم محمد سمیع الزمان کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔

پیر محمد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ تینوں افراد ایس ایم ایس کے حوالے سے تنازع میں شامل تھے دو سال قبل شکیل اوج نے اس حوالے سے مقدمہ درج کروایا تھا جس میں انہوں نے اپنی زندگی کو خطرے میں قرار دیا تھا۔

پروفیسر شکیل اوج کے خلاف چلایا جانے ایس ایم ایس کچھ یوں تھا ’’رسول اور قران کے کی گستاخی کے مرتکب ڈاکٹر شکیل پر لعنت ہو، ان کی بس ایک ہی سزا ہے۔۔۔۔ موت‘‘

2012 میں جب شکیل اوج کی جانب سے مقدمہ درج کروایا گیا تھا اس وقت انہوں نے پولیس کو کہا تھا کہ میرے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے میری زندگی کو خطرہ ہے مجھے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں