'دھرنوں کے خلاف مذمتی قرارداد زرداری کی منظوری کے بعد پیش ہوئی'

20 ستمبر 2014
وزیراعظم نواز شریف جمعے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— اے پی پی فوٹو
وزیراعظم نواز شریف جمعے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— اے پی پی فوٹو

اسلام آباد : حزب اختلاف کی جماعت پیپلزپارٹی نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے خلاف مذمتی قرارداد کی حمایت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا مطالبہ اس وقت کیا جب مجوزہ قرارداد کے مسودے کی کراچی میں اعلیٰ قیادت نے منظوری دے دی۔

وزیراعظم نواز شریف سے تمام پارلیمانی رہنماﺅں کی ملاقات کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ اس میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس قرارداد کو پیش کیے جانے سے قبل تبادلہ خیال کیا گیا، تاہم پیپلزپارٹی نے حکومت کو فری پاس دینے سے انکار کردیا، جس کے نتیجے میں وزیراعظم کا ایوان سے خطاب اور قرارداد کو پیش کیے جانے کا عمل نماز جمعے کے بعد تک کے لیے التوا کا شکار ہوگیا، ورنہ حکومت کا منصوبہ تھا کہ سب کچھ نماز سے پہلے کرلیا جائے۔

پارلیمانی سربراہان کے اجلاس میں شریک ایک شخص نے ڈان کو بتایا"اجلاس صبح ساڑھے دس بجے کے قریب شروع ہوا اور ہم نے ایک گھنٹے کے اندر قرارداد تیار کرلی مگر پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ اصرار کیا گیا کہ وہ اس کی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے منظوری لیں گے، جس کے باعث پارلیمنٹ کا اجلاس دوپہر تک جاری رہا"۔

قرارداد کے مسودے کو حتمی شکل دیئے جانے کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ ان کی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ اس کی آصف زرداری سے منظوری چاہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق آصف زرداری جو صبح دیر سے اٹھنے کے عادی ہیں، اس وقت سو رہے تھے جب قرارداد کا مسودہ انہیں فیکس کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے مواد کے بارے میں معلومات کے لیے وقت لیا جس کی وجہ سے وزیراعظم کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب تین بجے سہ پہر کو شروع ہوا اور اس کے بعد ایوان کی کارروائی ملتوی کردی گئی۔

حکومتی اتحادی محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور کچھ ن لیگ کے عقابون نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا مطالبہ کیا مگر پیپلزپارٹی اس طرح کا اقدام نہیں چاہتی تھی۔

پیپلزپارٹی کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا"یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری سے مشاورت کی گئی اور شریک چیئرمین اپنی جماعت کو طاقت کے استعمال کو درست قرار دینے کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تھے آخرکار پی پی پی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت ہے"۔

ایک سنیئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ ہم سخت لافاظ والی قرارداد چاہتے تھے جس میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے حامیوں سے ریڈ زون سے طاقت کے زور پر نکالنے کا مطالبہ بھی شامل ہوتا، جس کی ایوان نے حمایت بھی کی تھی، مگر آخر میں حکومت کو معتدل قرارداد پر اکتفا کرنا پڑا، جس میں دھرنوں کی صرف مذمت کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے تقدس کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سیاسی جرگے کی تجاویز پر وزیراعظم کا ردعمل

پارلیمانی سربراہان کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے سیاسی جرگے کی جانب سے حکومت اور دونوں احتجاجی جماعتوں کے درمیان سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز پر تکلیف کا اظہار بھی کیا۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمان ملک جو چھ رکنی جرگے کا حصہ ہیں، نے جمعرات کو صحافیوں کو اپنی تجاویز سے آگاہ کیا تھا جس میں یہ وزیراعظم کی جانب سے یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ مجوزہ عدالتی کمیشن کی جانب سے گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی ثابت ہونے پر وہ مستعفی ہوجائیں گے۔

ذرائع نے وزیراعظم کے بیان ان الفاط میں پیش کیا ہے" میں ان تجاویز کو دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ جرگے کا کردار دونوں اطراف کے درمیان بات چیت کو سہولت فراہم کرنا ہے اور اس کی جانب سے بحران کے خاتمے کے لیے تجاویز پیش کرنے کا سوچا نہیں جاسکتا"۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر جرگہ ان تجاویز کو میڈیا میں پیش بھی کرنا چاہتا تھا تو کم از کم حکومت سے اس بارے میں بات تو کرتا۔

تاہم رحمان ملک نے کہا تھا کہ یہ تجاویز تینوں اسٹیک ہولڈرز کو بھجوا دی گئی ہیں۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی سربراہی میں قائم جرگے نے بار بار کہا ہے کہ وہ ایسے منصوبے پر کام کررہی ہے جس پر عملدرآمد کیا گیا تو دونوں فریقین کو فاتح بننے کا موقع ملے گا۔

وزیر اطلاعات پرویز رشید جو وزیراعظم کے ترجمان بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ جرگے کو تجاویز پیش کرنے کا ٹاسک نہیں دیا گیا تھا"انہوں نے ایسا خود کیا ہے"۔

حکومت کی جانب سے جرگے کی تجاویز پر سامنے آنے والا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی تھرڈ پارٹی کو احتجاجی جماعتوں سے مذاکراتی معاہدے کے لیے کردار دینے کی خواہشمند نہیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت کئی بار یہ الزام لگاچکی ہے کہ حکومت بحران کو حل کرنے کے لیے مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں