ناقص انتخابی سیاہی کے استعمال پر اداروں کے ایک دوسرے پر الزامات

20 ستمبر 2014
مئی 2013 کے عام انتخابات میں ایک ووٹر انگوٹھے کا نشان لگارہا ہے— فائل فوٹو
مئی 2013 کے عام انتخابات میں ایک ووٹر انگوٹھے کا نشان لگارہا ہے— فائل فوٹو

اسلام آباد : انتخابی ووٹوں کی دھاندلی کو روکنے کے لیے گزشتہ برس کے عام انتخابات میں بائیومیٹرک سسٹم متعارف کرانے کا منصوبہ ناکام رہا اور اب اس میں ایک نیا موڑ جمعے کو اس وقت آیا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) اور پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ(پی سی ایس آی آر) نے مقناطیسی سیاہی کے استعمال میں ناکامی پر ایک دوسرے پر الزامات لگادیئے۔

انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران ای سی پی نے پی سی ایس آئی آر کی جانب سے فراہم کردہ سیاہی کے معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا، مگر کونسل کے نمائندوں نے اصرار کیا کہ اس نے یہ سیاہی کمیشن کی جانب سے دی گئیں ہدایات کے مطابق ہی تیار کی ہے۔

پی سی ایس آئی آر نے اصرار کیا کہ ای سی پی مقناطیسی سیاہی پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کا ذمہ دار تھا اور اس عمل کے دوران کچھ غلط ہوا تھا۔

ای سی پی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ انتخابات کے بعد ایک اجلاس میں پی سی ایس آئی آر نے آگاہ کیا تھا کہ کھولے جانے کے بعد اس سیاہی کو چھ گھنٹوں کے اندر استعمال کرنا ضروری ہے اور یہی بڑی تعداد میں ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

تاہم اس عہدیدار نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پولنگ عملے میں تربیت کی کمی بھی اس کی وجہ ہے کیونکہ کئی طرح کی سیاہی بیلٹ پیپرز اور دیگر دستاویزات پر پر ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کے لیے استعمال کی گئی۔

بائیو میٹرک کا تصدیقی سسٹم اس توقع کے ساتھ متعارف کرایا گیا تھا کہ اس کے ذریعے بوگس ووٹوں کی نشاندہی ہوسکے گی اور انہیں ڈالنے والوں کو سزا دی جاسکے گی مگر نادرا کی جانب سے سندھ کے کچھ حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق سے یہ بات سامنے آئی کہ مقناطیسی سیاہی کو استعمال نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں ان حلقوں کے ہزاروں ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

پارلیمانی کمیٹی کے اراکین نے سیاہی کے معیار پر سوالات کیے اور پوچھا کہ پولنگ عملہ کو مناسب تربیت کیوں نہیں دی گئی جب ووٹرز کی تصدیق کے سٹم کا اچھا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔

کمیٹی کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ ایک اور اجلاس 29ستمبر کو ہوگا جس میں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے حکام کو بھی طلب کیا گیا ہے تاکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب جعلی بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کے الزامات پر ان کے موقف کو سنا جاسکے۔

کمیٹی نے مبینہ دھاندلی پر ریٹرننگ افسران کے مبینہ کردار کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں