پاکستان کی "مڈل کلاس" بغاوت

پاکستان کے مڈل کلاس لوگ ہی جمہوریت کے سب سے بڑے مخالف ہیں اور کچھ کیسز میں تو جمہوریت کی مخالفت بغاوت کی حد تک شدید ہے۔
پاکستان کے مڈل کلاس لوگ ہی جمہوریت کے سب سے بڑے مخالف ہیں اور کچھ کیسز میں تو جمہوریت کی مخالفت بغاوت کی حد تک شدید ہے۔

جمہوریتیں تب مضبوط ہوتی ہیں، جب جمہوری نظام کے خاتمے کی قوت رکھنے والے قومی گروہ ونسٹن چرچل کی اس بات پر عمل کریں، کہ جمہوریت اب تک آزمائے گئے تمام حکومتی نظاموں سے بہتر ہے۔

دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں تو اونچے طبقے کے لوگ جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ اس سے ان کی طاقت ختم ہوجاتی ہے، جبکہ مڈل کلاس کے لوگ مزید اختیارات کے لیے جمہوریت چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے نااہل اونچے طبقے کے سیاستدانوں کی جانب سے ٹھکرائے گئے پاکستان کے مڈل کلاس کے لوگ ہی جمہوریت کے سب سے بڑے مخالف ہیں، جبکہ کچھ کیسز میں تو جمہوریت کی یہ مخالفت بغاوت کی حد تک شدید ہے۔

ان کی بغاوتوں میں 1950 کی دہائی کی بیوروکریٹس کی سازشیں، مارشل لاء، سابق چیف جسٹس کی کرپشن کے خلاف صلیبی جنگ، اور خلافت کے لیے پر امن اور پر تشدد مطالبے شامل ہیں۔

ان بغاوتوں میں ایک معصومانہ پر اہم نظریہ پیش کیا جاتا ہے، کہ پاکستان کی سیاست کو کچھ خاندانوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے، اور ان کو بھلے ہی غیر آئینی طریقے سے نکالا جائے، لیکن ان کو نکالتے ہی گورننس میں فوری بہتری آجائے گی۔

لیکن مڈل کلاس ڈکٹیٹرز کے ہوتے ہوئے بھی گورننس میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

پاکستان کی سیاست پاکستانی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ موروثی اور خاندانی سیاست، جسے معاشرے میں پذیرائی حاصل ہے، ہمارے معاشرے کے موروثیت کی جانب جھکاؤ کو واضح کرتی ہے، جس میں بزنس، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، مذہبی احکامات شامل ہیں، اور یہ موروثی سیاست صرف تب ختم ہوگی، جب پاکستانی معاشرہ موروثیت کی جانب اپنے جھکاؤ کو ختم کرے، اور آمدنی اور خواندگی میں اضافہ ہو۔

طاقت کے حصول سے محروم لوگوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں بچتا، کہ وہ زندہ رہنے کے لیے سیاستدانوں سے تعلقات بنائے رکھیں۔ گورننس کی بہتری صرف کچھ کرپٹ سیاستدانوں کو ہٹانے سے نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے نظام کو تبدیل کرنے سے آئے گی۔

گورننس کی بہتری کا شارٹ کٹ جمہوریت کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ تحمل سے اس کے ساتھ کام کرنا، نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کر کے انہیں تعلیم اور روزگار فراہم کرنا، اور انہیں متحرک کرنا ہے۔

لیکن بدقستمی سے مڈل کلاس غریبوں کو رکاوٹ کے طور پر دیکھتی ہے، اور الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ڈگری وغیرہ کی پابندیوں سے انہیں دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

ان بیوروکریٹک، فوجی، مذہبی، اور عدالتوں سازشوں کے بعد اب تازہ ترین طاہر القادری اور عمران خان کی جمہوری سازش ہے۔ سماجی انصاف کے حصول کے لیے ایک پرامن احتجاج کے جمہوری لبادے میں ان دونوں حضرات نے یہ کوشش کی، کہ ایک کرپٹ، نااہل، مگر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، بھلے ہی کورٹوں میں اب تک دھاندلی ثابت نہیں ہوئی ہے۔

ان کی چالیں آئین وغیرہ جیسے "کتابی تصورات" کے لیے مڈل کلاس کی ناپسندیدگی پر مبنی ہیں۔ اب جبکہ دو باغی لیڈر سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں، تو کیا ان کا یہ جمہوری ٹیک اوور مڈل کلاس کی جانب سے کی گئی آخری بغاوت کے جیسا لگتا ہے؟ اداروں کی صورت میں مڈل کلاس گروپ جیسے کہ، بیوروکریسی، عدلیہ، اور میڈیا نے چاہے ان چاہے طریقے سے جمہوریت کو تسلیم کر ہی لیا ہے۔

لیکن کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف مڈل کلاس کی شکایات اپنی جگہ موجود ہیں۔ تو کیا اب مڈل کلاس نئی لیڈرشپ، جیسے کہ خلافت کے حامیوں کی تلاش میں ہے؟ لگتا تو نہیں ہے، کیونکہ خلافت کے حامیوں کے ارادے مبہم اور سخت گیر معلوم ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ پی ٹی آئی کی سیاست ٹکراؤ پر مبنی ہے، لیکن وہ پھر بھی شاید اسی کے ساتھ رہیں۔

پاکستانیوں کو ایک اسٹیٹس مین کی خواہش ہے۔ لیکن کنٹینر کے اوپر موجود ایک ٹکر لینے والا سیاستدان ولن جیسا زیادہ لگا۔ لیکن پھر بھی پی ٹی آئی پاکستان میں موجود انتہائی محدود آپشنز سے ہٹ کر تبدیلی کی امید کی نمائندگی کرتی ہے۔

خیبر پختونخواہ کے دیہاتوں میں تو نہیں، پر پشاور میں میں نے لوگوں کو گورننس میں محدود پیمانے پر آنے والی بہتری کی باتیں کرتے سنا ہے۔ بھلے ہی یہ تبدیلیاں مسلم لیگ (ن) کے چمکدار پراجیکٹس کی طرح شان و شوکت والی نہیں، لیکن مستحکم ترقی کے لیے اچھا قدم ثابت ہوسکتی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کو چلانے والے ٹیکنیکل مینیجرز کتنی تبدیلی لاسکتے ہیں، اس کی بھی اپنی حدیں ہیں۔

عمران خان کو اپنے اس دھرنے کے اثرات سے نکلنے کے لیے اب خیبر پختونخواہ کی گورننس میں مزید بہتری لانی چاہیے۔ جبکہ طاہر القادری صاحب کو بھی لینن بننے کے بجائے مارٹن لوتھر کنگ بننے اور سماجی اصلاحات لانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

کئی لوگوں کے نزدیک موجودہ بحران جمہوریت کے لیے ایک بڑا سیٹ بیک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے پالیسی سازی میں ملٹری کو کچھ حصہ ملا ہو، لیکن اختلافات کے تمام معاملوں پر نااہل ترین سیاستدانوں کے پالیسی مؤقف خیالی طور پر اہل ملٹری سے بہتر ہیں۔

لیکن اس بحران نے جمہوریت کی کمزوریوں اور طاقت دونوں کو واضح کردیا ہے۔ منتخب حکومت کو مفلوج کرنا آسان ہے، لیکن اسے گھر بھیجنا مشکل ہے۔ جزوی سیٹ بیک ایک طرف، لیکن طویل مدت میں جمہوریت کی سمت صحیح رہی ہے۔ مفلوج شدہ اسلام آباد ایک مضبوط جمہوریت کی پیدائش کی ضمانت ہے، جہاں ہنرمند مڈل کلاس نے جمہوریت کی بالادستی کو قبول کرلیا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ماہرِ سیاسی اقتصادیات ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں