انسانی ترقی کی فہرست میں پاکستان جمود کا شکار

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2014
یو این ڈی پی کے ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں 44.2 فیصد گھرانے کثیر جہتی مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی
یو این ڈی پی کے ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں 44.2 فیصد گھرانے کثیر جہتی مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسلام آباد: اقوامِ متحدہ کے ایک دارے کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعے کے مطابق انسانی ترقی کی فہرست (ایچ آئی ڈی) میں پاکستان کی قدر میں اضافہ تقریباً پچھلے پانچ سالوں سے رکا ہوا ہے۔

یہاں ایک تقریب کے دوران انسانی ترقی کی رپورٹ 2014ء کے اہم نتائج پیش کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ملکی ڈائریکٹر آندرے فرانکے نے کہا عالمی سطح پر انسانی ترقی کی سست نشوونما میں کہ آمدنی میں جمود یا اضافہ اور تعلیمی عدم مساوات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

یو این ڈی پی نے اپنی انسانی ترقی کی فہرست (ایچ آئی ڈی) بھی جاری کی، جو 187 ملکوں اور اقوامِ متحدہ کے تسلیم کردہ علاقوں کی قدر پر مشتمل ہے۔ ان ملکوں کی درجہ بندی اقتصادی اور انسانی ترقی کے اشاریوں کی شرائط کے تحت کی گئی ہے۔

انسانی ترقی کی فہرست 2013ء میں پاکستان کی قدر 0.537 ہے، جو اس فہرست میں نچلا درجہ ہے، اس کی وجہ سے 187 ملکوں میں پاکستان 146 ویں پوزیشن پر کھڑا ہے۔

جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی صورتحال بھی انسانی ترقی کی فہرست کی شرائط کے تحت اورکچھ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پاکستان سے ملتی جلتی ہی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان 135 ویں درجے پر ہے، جبکہ بنگلہ دیش کو 142 واں درجہ دیا گیا ہے۔

یو این ڈی پی کے عہدے دار کے مطابق پچھلے پندرہ برس سے زیادہ عرصے سے 2.2 ارب انسان بڑی کامیابیوں کے باوجود کثیر جہتی مفلسی سے نزدیک ہیں یا اس میں زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 44.2 فیصد گھرانے کثیر جہتی مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جغرافیائی مقامات بھی ساختیاتی خطرات میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ دنیابھر کے غریبوں کا تین چوتھائی حصہ دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔

جنوبی ایشیا میں 86.3 فیصد کثیر جہتی غربت کا شکار لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال سرحدی علاقوں میں بدترین ہوجاتی ہے۔

اس رپورٹ میں انسانی ترقی کی شرح کو بہتر بنانے کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان کو نوجوانوں کو بااختیار بنانے، انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو سماجی خدمات اور حفاظتی جال کی بنیاد پر لوگوں کو بااختیار بنانا چاہیے تاکہ وہ زندگی کی قدر کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔

رپورٹ نے نشاندہی کی ہے کہ سوئیڈن نے 1891ء میں بیماری کی انشورنس کا قانون متعارف کروایا تھا، اور ناروے میں 1894ء میں لازمی معاوضے کا قانون نافذ کیا گیا تھا، یہ اقدام ان ملکوں میں اس وقت اُٹھائے گئے تھے، جبکہ ان کی کم سے کم فی کس آمدنی اس سطح پر تھی، جہاں پاکستان اس وقت کھڑا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں