خواب دو انقلابیوں کے

22 ستمبر 2014
ایک انقلابی خود کو وزیر اعظم بنتا دیکھ رہا ہے تو دوسرا صدارتی محل میں مریدوں سے ہاتھ پر بوسے کروانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
ایک انقلابی خود کو وزیر اعظم بنتا دیکھ رہا ہے تو دوسرا صدارتی محل میں مریدوں سے ہاتھ پر بوسے کروانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

*جمعرات کے دن کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ایسی بچی کی پیدائش ہوئی جس کا دھڑ تو ایک تھا مگر سر اور دماغ دو دو تھے۔ *

ڈاکٹروں کے مطابق پیدا ہونے والی بچی کی سانس کی نالی صرف ایک تھی، جس کی وجہ سے بچی کا بچنا مشکل تھا اور یہی ہوا۔ کچھ گھنٹے اس دنیا میں گزارنے کے بعد بچی وفات پاگئی۔

اللہ تعالٰی بچی کے والدین کو حوصلہ دے۔ آمین۔


اس بچی کا ذکر اس بے لاگ بلاگ میں اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج کل پاکستان کے دارالحکومت میں بھی ایک انقلاب جنم لے چکا ہے۔ اس کے بھی دو سر ہیں اور دو ہی دماغ۔ ظاہری طور پر اس انقلاب کی سانس کی نالی بھی ایک ہے۔ جس کے ذریعے یہ نام نہاد انقلاب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ معاشرتی حکیموں اور میڈیا کے عطائیوں کے نزدیک اس انقلاب کا بچنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

مگر مر جانے والی بچی کے برعکس اس دو چہروں والے انقلاب کی اکلوتی سانس کی نالی اتنی مضبوط ہے کہ اسے ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہے اور مرتے مرتے بھی مرنے نہیں دے رہی۔ دونوں انقلابی چہروں کا اس اکلوتی سانس کی نالی پر اعتماد ابھی تک ایک جم حقیر کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنے کو جاری رکھے ہوئے ہے اور دو چہروں اور دو دماغ رکھنے والے دو انقلابی شہباز شریف اور نواز شریف کے استعفے لینے پر بضد ہیں۔

ان دونوں انقلابیوں کی اکلوتی سانس کی نالی کی مضبوطی کو دیکھتے ہوئےکچھ موسمی اور کچھ سدا بہار تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چند غیر جمہوری طاقتیں اس نالی کے ذریعے دونوں انقلابیوں کو آکسیجن مہیا کررہی ہیں۔ جن کی طرف سے دونوں انقلابیوں کو کچھ یقین دہانیاں اس وعدے کے ساتھ کروائیں گئی ہیں کہ جب تک اس حکومت کو گھر نہیں بھیجا جاتا، انھیں آکسیجن کی سپلائی متواتر ملتی رہے گی۔


پڑھیے: بڑے بوٹ اور چھوٹے بوٹ


اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے ایک ماہ گزر نے کے بعد میڈیا پر بیٹھے کچھ سیاسی جوتشیوں اور سیلابی پانی میں کھڑے حکومتی عہدیداروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ دونوں انقلابی چہرے اپنے ہی ہاتھوں اپنا سیاسی مستقبل تباہ کرچکے ہیں۔ ملک میں تبدیلی کے مخالفین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری دھرنے صرف اور صرف ضد اور جھوٹی انا کی وجہ سے جاری ہیں۔

دونوں لیڈروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے اپنا سیاسی کریئر بچائیں اور جیت کا اعلان کرتے ہوئے دھرنا ختم کرسکیں۔ مگر بھولے بھالے سیدھے سادے تبدیلی کے دشمنوں کو ابھی ان دو شاطر دماغ رکھنے والے انقلابیوں کی سانس کی نالی کی مضبوطی کا اندازہ نہیں، جس کے ذریعے آکسیجن کی ترسیل بغیر تعطل کے جاری ہے۔

میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق تو دونوں انقلابیوں اور حکومت کے مابین تقریباً تمام معاملات پر آمادگی ہوگئی تھی، مگر عوامی تحریک کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور تحریک انصاف کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفوں کے مطالبے پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو پارہے اور دھرنے جاری ہیں۔

ویسے تو ذرائع ابلاغ پر دھرنوں سے متعلق پل پل کی رپورٹنگ کی جارہی ہے اور میڈیا اب صرف طاہر القادری اور عمران خان کے سونے جاگنے کھانے پینے کی خبر بریک نہیں کررہا، مگر میڈیا اس نقطے پر بھی روشنی نہیں ڈال رہا کہ دونوں انقلابی سارے مطالبات بالائے طاق رکھ کر دونوں شریف بھائیوں کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر ہی کیوں بضد ہیں؟خیر فی الحال اس نقطے کو چھوڑتے ہیں۔

جو بھی کہیں، دھرنوں کا ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے کے پیچھے کوئی نا کوئی تو خاص وجہ ضرور ہوگی جس کی وجہ سے ان دونوں انقلابی چہروں کو آکسیجن بنا کسی رکاوٹ کے دستیاب ہے۔


مزید پڑھیے: انقلاب کا ترپ پتّہ


جیسا کہ کچھ میڈیا والوں کا یہ بھی کہنا ہے کے یہ صرف دونوں انقلابی لیڈران کی ضد ہے مگر مجھ جیسے جونیئر ترین میڈیا نمائندے کے نزدیک کوئی بھی شخص اتنا ضدی کیسے ہوسکتا ہے کہ ہزاروں لوگوں کو کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور کرسکے؟ ہو نا ہو، دھرنے کے لیڈروں کو کسی نا کسی کی جانب سے تو وعدے وفا کرنے کا اشارہ مل رہا ہے۔ اور جیسا کہ اب عمران خان نے کہا ہے کہ اُن کے لیے اب مشکل ہوتا جارہا ہے کے وہ اپنے ٹائیگرز کو مزید قابو میں رکھ سکیں۔ آخر وہ عمران خان کے ٹائیگرز ہیں۔ کوئی سرکس کے تھوڑی۔

دوسری جانب قادری صاحب بھی اپنے روزمرہ خطاب میں جیالوں کو ڈٹے رہنے کا حکم دے رہے ہیں اور آنے والی عید تک انقلاب آنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ کبھی کرنسی نوٹوں پر گو نواز گو کے نعرے لکھنے کے احکامات دیتے ہیں اور پھر اپنا ہی حکم واپس لے لیتے ہیں۔

میرے نزدیک تو شاید اب یہ دو چہرے، دو دماغ اور ایک سانس کی نالی رکھنے والے انقلابی چاہتے ہیں کہ دھرنوں میں موجود ہزاروں کارکنوں میں سے کچھ کارکن حکومتی رد عمل کے نتیجے میں سانس لینا بند کردیں اور غیر جمہوری طاقتیں ملک کے وسیع تر مفاد کو دیکھتے ہوئے مداخلت کریں۔

مگر یہ دونوں انقلابی اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو انتخابات کا انعقاد مستقبل قریب میں ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔ جس کے ذریعے ان میں سے ایک انقلابی اپنے آپ کو وزیر اعظم بنتا دیکھ رہا ہے اور دوسرا صدارتی محل میں بیٹھا اپنے مریدوں سے اپنے ہاتھوں پر بوسے کروانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

Naveed Shakur Sep 22, 2014 01:55pm
Psycho!
Abdul Khaliq Sep 22, 2014 06:45pm
The most concerning point for the residents of twin cities of Rawalpindi and Islamabad is the attendants of inqalab and azadi march of PAT and PTI led by Qadri and Imran. Almost all are in possession of sticks afixed with nails and seem ready to attack anyone who dares to enter the area. Apparently there seems no government writ in the heart of the capital city and that too in front of parliment house. people visiting the area and offices find themselves so helpless which could not be explained now in words. Another important point to consider is the movement of the attendants; said to be honourable workers of both the parties, in the classified areas and markets of Islamabad. The disturbance in peaceful life of the residents and official is the dances and songs of the mixed gathering. IS THERE ANY GOVERNMENT POLICY TO STRAIGHT THE ATMOSPHERE OF THE CITY AND KEEP THE SANCTITY OF THE CITY?
wisal shah Sep 22, 2014 07:52pm
Just three word for you Mr nasim navid Lifafi Wali GO NAWAZ GO
islamabadian Sep 22, 2014 08:34pm
GO IK GO .... GO TUQ GO
RAJA SOHAIB Sep 23, 2014 10:19am
GO NAWAZ GO