عبداللہ عبداللہ افغان صدارت سے دستبردار

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2014
۔—رائٹرز فوٹو۔
۔—رائٹرز فوٹو۔

کابل: افغانستان میں ملکی صدارت پر ایک عرصے سے جاری بحران بالآخر اختتام پذیر ہو گیا ہے جہاں دونوں صدارتی امیدواروں اشرف غنی اور اور عبداللہ کے درمیان اتوار کو معاہدہ طے پا گیا ہے۔

افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ صدارت کے منصب سے دستبردار ہو گئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے حریف اشرف غنی کو ملک کا صدر ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں حتمی ووٹوں کا اعلان بھی جلد کردیا جائے گا جسے ایک عرصے سے جاری ڈیڈ لاک کے حل کے لیے کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

جون میں جاری کیے گئے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج میں کامیابی حاصل کرنے والے اشرف غنی ملک کے صدر ہوں گے جبکہ عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو افسر کے عہدے کے لیے ایک شخص کو نامزد کریں گے، یہ عہدہ وزیر اعظم کے منصب کے برابر ہو گا۔

اشرف غنی اور عبداللہ دونوں نے ہی انتخابی عمل میں کامیابی کا دعویٰ کیا تھا اور اس لیے بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر اقوام متحدہ نے قومی اتحادی حکومت بنانے پر زور دیا تھا تاکہ ملک کو دوبارہ 90 کی دہائی میں لسانی بنیادوں پر ہونے والی خانہ جنگی سے بچایا جا سکے۔

دونوں امیدوار صدارتی محل میں ہونے والی تقریب میں گلے ملے اور صدر حامد کرزئی کی تقریر کے بعد معاہدے پر دستخط کیے۔

آئین کے تحت صدر ملک کے تمام تر اختیارات کا مالک ہو گا اور ملکی سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ حکومت کا بہت بڑا امتحان ہو گا۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آخر امریکی اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اور دس ہزار لگ بھگ امریکی فوجی افغان فوجیوں کی مدد اور رہنمائی کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گے لیکن دسمبر کے بعد ملک کی سیکیورٹی کی باگ ڈور افغان فوج اور پولیس کے پاس ہو گی۔

آزاد الیکشن کمیشن کے حکام نے اے ایف پی کو بتایا کہ نتائج اتوار کو معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔

افغان صدارت کے لیے جاری سرد جنگ ختم ہونے کے بعد افغانستان اور امریکا کے درمیان مستقبل میں خوشگوار تعلقات کی امیدیں روشن ہو گئی ہیں اور جلد امریکا سے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کا امکان ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل افغان صدر حامد کرزئی نے سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا تاکہ ملک میں رواں سال کے اختتام کے بعد بھی غیر ملکی افواج کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔

نیٹو کے اعلیٰ فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کے قیام کے بعد جلد معاہدے کا امکان ہے۔

امریکی جنرل فلپ بریڈ لو نے کہا کہ ہمیں انتہائی تیزی کے ساتھ دستخطوں کی امید ہے، اور یہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے ہماری مستقل مدد کے راستے کھل جائیں گے۔

نئی حکومت ک قیام کے بعد ہی طالبان کے ساتھ بھی امن معاہدہ طے پانے کے امکانات ہیں جو کرزئی کے عہد میں ناکامی سے دوچار ہو گئے تھے۔

ملکی سیکیورٹی کی ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے نئی حکومت کے پاس طالبان کے پاس جلد از جلد امن معاہدے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا تاکہ افغان سرزمین پر قیام امن کے بعد اسے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں اب تک دو ہزار 312 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد 2013 کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے۔

افغانستان میں 2010 میں موجود نیٹو فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اس وقت تک یہ تعداد کم ہوتے ہوتے 41 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں