حکومت سیلاب سے تحفط کے لیے منصوبے بنانے میں ناکام

22 ستمبر 2014
سندھ میں سیلاب کے دوران خواتین کی پناہ گاہ کے طور پر تعمیر ہونے والے مراکز
سندھ میں سیلاب کے دوران خواتین کی پناہ گاہ کے طور پر تعمیر ہونے والے مراکز

لاہور : ملک میں حکومتوں کی جانب سے شدید بارشوں یا سیلاب سے انسانی جانوں اور املاک کے نقصان کو کم کرنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے، بلکہ اس کے برعکس وہ اربوں روپے ریسکیو اور امداد کے اقدامات پر اسی وقت خرچ کرتی ہیں جب لوگ بری طرح قدرتی آفات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کی تشکیل کے بعد سے یہ مسئلہ سامنے آتا رہا ہے اور اس کی نئی مثال گزشتہ دنوں شدید بارشیں اور دریائے جہلم اور خصوصاً چناب میں شدید سیلاب ہے۔

لوگوں کو بارشوں اور سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں دو سو سے زائد افراد ہلاک اور بڑے پیمانے پراربوں روپوں کی سرکاری و نجی املاک اور فصلوں کو نقصان پہنچا۔

پبلک سیکٹر انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کا ابتدائی تخمینہ دس ارب روپے سے زائد لگایا گیا ہے جس سے تباہی کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حکومت کی جانب سے مدد اس وقت آئی جب لوگ شمال مشرقی پنجاب خاص طور پر سیالکوٹ ریجن میں سیلابی ریلوں میں پھنس چکے تھے، ریسکیو آپریشنز کیے گئے مگر ٹیمیں سیلاب اور بارش سے بری طرح متاثر ہونے والے مقامات پر بروقت نہیں پہنچ سکیں۔

متعدد افراد نے اپنے مویشیوں، ذخیرہ کردہ اجناس اور قیمتی اشیاءکے تحفظ کے لیے گھروں مین رہنے کو ترجیح دی، بڑی تعداد میں افراد اپنے دفتری فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئے۔

دریائے چناب کے نشیبی بہاﺅ پر حکومت نے زندگیوں کے تحفظ کے لیے جبری انخلاءکا سلسلہ شروع کیا مگر دریائے چناب سندھ کی جانب اپنے سفر کے دوران بستیوں کو تباہ کرتا چلا گیا۔

متعدد سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشنز کی نگرانی کرنے والے حکام نے بتایا کہ ریسکیو ٹیمیں نشیبی بہاﺅ کے علاقے یں پہنچ گئی تھیں تاہم باہر سے امداد بھیجنا مشکل ہوگیا جس کی وجہ صورتحال کی سنگینی تھی۔

لوگوں کو اپنے گھروں سے محروم ہونا پرا اور ان کے پاس کھانے یا پینے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا، مگر انہیں بنیادی اشیاءکی سپلائی بہت مشکل تھا۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا"ہم نے حادثات سے سیکھا تھا ہم امداد فراہم کررہے تھے مگر سب سے پہلے کھلے گٹروں کو بند کرنے کا کام کیا گیا جہاں ایک بچہ ڈوب گیا تھا"۔

ملک میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی وفاقی سطح پر جبکہ صوبے میں پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی وزیرعلیٰ کے زیرتحت اربوں روپوں کے ریلیف اور بحالی نو کے آپریشنز کو دیکھ رہی ہے۔

تاہم پی ٹی ایم اے کے پاس اضلاع کی سطح پر آپریشنل امور کے حوالے سے انتظامات نہیں، اور حکومتی منصوبے کے مطابق ڈی سی اوز اس کے نمائندوں کی حیثیت سے امداد اور ریسکیو آپریشنز کی نگرانی کریں گے۔

این ڈی ایم اے ہر سال ایک منصوبہ تیار کرتی ہے اور تمام صوبوں کو بھجوایا جاتا ہے اور وہاں سے وہ ایک بار پھر اضلاع کو چلے جاتے ہیں اور تمام ڈی سی اوز مختلف ایونٹس جیسے مون سون کی بارشیں یا سیلاب وغیرہ میں ان منصوبوں پر عملدرآمد کرتے ہیں۔

تاہم تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی قدرتی آفت کے آنے سے قبل انسانی جانوں اور املاک کے نقصانات میں کمی یا مقامی سطح پر امداد کی فراہمی کے لیے کوئی مشق نہیں کی جاتی۔

ادارہ جاتی سطح پر ایسے کوئی انتظامات نظر نہیں آتے جن کے ذریعے لوگوں کو قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے کیا جاسکے۔

حکام کا کہنا ہے کہ این ڈی ایم اے مسلسل تربیتی کورسز کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس میں ڈی سی اوز کے نامزد کردہ افراد شرکت کرتے ہیں، مگر ان کی مشقیں نہیں کی جاتی۔

حکام تربیت لیتے ہین اور اسے بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایسے افسران جن کا ریلیف یا ریسکیو آپریشنز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، انہیں بھی تربیتی کورسز کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

بیشتر ڈی سی اوز جو امدادی آپریشنزکے نگران ہوتے ہیں، کو لگتا ہے کہ انہیں اس طرح کے کورسز کی کوئی ضرورت نہیں، جبکہ یہاں کوئی ایسا ٹھنک ٹینک بھی نہیں جو یہ تجاویز دیں کہ محکموں کی سطح پر کن انتطامات کے ذریعے لوگوں اور املاک کو قدرتی آفت کے آنے سے قبل تحفظ دیا جاسکتا ہے۔

وہ لوگ جو آپریشنز کو چلاتے ہیں انہیں اس بات کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے کہ مقامی سطح پر انتظامات جیسے ریسکیو کے لیے تیراکوں، ملاحوں اور ملبے کے نیچے دب جاےن والے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے ماہرین وغیرہ پر مشتمل ذٹیموں کی تشکیل دینا۔

کچھ ارب روپے کی سرمایہ کاری کرکے بھاری مشینری، کشتیاں اور دیگر متعلقہ آلات فراہم کرکے بھی تباہی کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

عارضی پناہ گاہوں کو متاثرہ مقامات کے قریب اونچے مقامات پر تعمیر کیا جانا چاہئے اور ارگرد کے دیہات کے لوگ بارش یا سیلاب کے دوران وہ خودکار طور پر منتقل ہوجایا کریں۔

اس کے علاوہ مناسب طبی، سیکیورٹی اور کھانے پینے کے انتظامات کی بھی ضرورت ہے، جبکہ ایسے محفوظ مقامات بھی بنائے جانے چاہئے جہاں بے گھر افراد اپنے مویشیوں کو رکھ سکیں۔

ہیریٹج فاﺅنڈیشن کی چیئرپرسن یاسمین لاری کے نزدیک لوگوں کو قدرتی آفات سے مقابلے کی تعلیم دینا زندگیاں اور املاک کے تحفظ کا آسان طریقہ ہے"یہ سبق زیادہ مشکل نہیں، بس انہیں یہ سیکھانا ہوگا کہ کس طرح ان کے بزرگ خود کو سیلاب اور بارشوں سے محفوظ رکھتے تھے"۔

ستارہ امتیاز حاصل کرنے والی یاسمین لاری پیشے کے لحاظ سے ایک انجنئیر ہیں اور وہ اپنے شعبے میں متعدد اعزازات حاصل کرچکی ہیں، وہ قومی ورثے کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں، جبکہ وہ ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلیشن اتھارٹی کی بھی بورڈ رکن ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دیہاتی افراد کو سیکھایا جانا چاہئے کہ موہجوداڑو میں کیسے ان کے بزرگون نے کم قیمت بانسوں، مٹی اور چونے کی مدد سے محفوظ گھر تعمیر کررکھے تھے۔

انہیں یہ بھی سیکھایا جانا چاہئے کہ کس طرح غذائی اجناس کو اونچے مقامات پر ذخیرہ کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر خواتین کو'غیرت سے متعلقہ معاملات' کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، حکومت کو مقامی سطح پر مورچے تیار کرنے چاہئے اگر اس کے پاس سیلاب کے دوران میدانی جگہوں پر لوگوں کو منتقل کرنے کی کوئی جگہ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے لیے اونچے مقامات پر عمارات تعمیر کی جانی چاہئے جہاں وہ ہنگامی حالات کے دوران پناہ لے سکیں"ہم ہر سال سیلاب کے بعد جب متعدد جانوں کا ضیاع اور اربون روپوں کی املاک تباہ ہوجاتی ہے، اس وقت اربوں روپوں کی امدادی اشیاءخریدتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے کو روک کر تباہی کی شدت میں کمی پر سرمایہ کاری اور لوگوں کو اپنی بقاءکی تربیت دے کر ہی اس آفت کے دوران تباہی کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں