کیا قومی اسمبلی اقلیتوں کے معاملات سے لاتعلق ہوگئی ہے؟

22 ستمبر 2014
بائیس ستمبر 2013ء کو پشاور کے چرچ پر ہوئے حملے میں اپنے عزیزوں کی ہلاکت پر مسیحی خاتون و مرد شدتِ غم سے نڈھال ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی
بائیس ستمبر 2013ء کو پشاور کے چرچ پر ہوئے حملے میں اپنے عزیزوں کی ہلاکت پر مسیحی خاتون و مرد شدتِ غم سے نڈھال ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی

لاہور: ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان کی اقلیتوں کے لیے اراکین اسمبلی کے پاس کچھ زیادہ وقت ہے۔

ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ کی جانب سے قومی اسمبلی سے وابستہ ایک شراکتی مطالعہ کے مطابق، اس کی اپنی کارکردگی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کی مدت کے پہلے سال کے پورے عرصے کے دوران اقلیتوں کے مسائل پر صرف پندرہ گھنٹے تبادلۂ خیال کیا گیا﷽۔

مجموعی طور پر اقلیتوں یکے مسائل کو ایوان میں تقریباً صرف دس مرتبہ اُٹھایا گیا، اس میں سوال و جواب کا وقفہ بھی شامل ہے۔ اور یہ قومی اسمبلی کے تمام منعقد ہ اجلاسوں، جو 131 سے زیادہ کام کے دنوں یا درحقیقت 322 کام کے گھنٹوں پر محیط تھے، کے دوران پھیلے ہوئے ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں 2013ء سے گرجاگھروں، گرودواروں اور مندروں پر متعدد حملے کیے گئے، جبکہ متعدد غیر مسلم مذہب کے نام پر مار دیے گئے، یا پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 295سی کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا، اور قومی اسمبلی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ تر قانون سازوں نے ان پر بات نہیں کی، یہاں تک کہ کسی نے ان حملوں پر توجہ ہی نہیں دی۔

اگرچہ اسمبلی میں مذہبی مقامات پر ان حملوں کے خلاف قومی اسمبلی دو بل بھی منظور کیے گئے تھے، تاہم ایک دہشت گرد بھی گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی۔

مثال کے طور پر صرف جولائی 2014ء میں فرقہ پرست دہشت گردوں نے کم از کم تین شیعہ مسلک کے افراد کو عین عید کے روز ہلاک کردیا، جبکہ بعد میں اسی مہینے کے دوران گجرانوالہ شہر میں احمدیوں کا وحشیانہ قتل عام دیکھنے میں آیا، ایک حاملہ خاتون کے پیٹ میں بچے سمیت ایک خاتون اور دو بچیوں کو فیس بک کی ایک تصویر کے نام پر مشتعل ہجوم نے زندہ جلادیا۔

دس اراکین قومی اسمبلی اس منتخب ایوان میں اقلیتی برادری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان معزز اراکین میں ڈاکٹر درشن، ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی ، بھاون داس، اسفن یار ایم بھاندرا، طارق کرسٹوفر قیصر اور خلیل جارج کا تعلق قومی اسمبلی سے ہے، جبکہ رمیش لال کا تعلق پیپلزپارٹی سے، لال چند ملہی پی ٹی آئی سے، ایم کیو ایم کے سنجے پروانی اور جمیعت علمائے اسلام ف سے آسیہ ناصر اس ایوان کی رکن ہیں۔

لیکن اقلیتی برادریاں جن کی آواز مشکل سے ہی سنائی دیتی ہے، کسی سیاسی نمائندگی سے محروم ہیں۔

تشدد ان کا سب سے اولین مسئلہ ہے، لیکن اس کی سیاسی اہمیت سب سے زیادہ اہم ہے۔

انتخابی نمائندگان، انسانی حقوق کے رہنما اور سول سوسائٹی کے اراکین سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ بجائے جداگانہ انتخاب اور کسی ایک کے انتخاب کے بجائے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مخصوص امیدوار کو نامزد کرنے کے نظام سے ناخوش ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سیاسی نظام کے خاتمے نے سیاست کے مرکزی دھارے سے ان کا تعلق ختم کردیا ہے اور میرٹ پر امیدوار وں کو پارلیمنٹ میں اپنی برادری کی نمائندگی کا کبھی موقع نہیں ملا۔

حالانکہ 2013ء کے دوران قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافے کے لیے ایک بل وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کیا گیا تھا، جس میں اقلیتوں کی آبادی کی مناسبت سے ان کی مختص نشستوں میں اضافے کی منظوری دی گئی تھی۔

تاہم یہ بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔

جنوری 2014ء کے دوران اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں آئینی ترمیمی ایکٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔

ایوان سے ایک مرتبہ پھر مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرکے اس کو پندرہ نشست کرنے کے لیے کہا گیا۔

یاد رہے کہ غیر مسلموں کے لیے دس نشستیں اس وقت مختص تھیں، جبکہ عام نشستوں کی تعداد 207 تھی۔ لیکن جب 2002ء میں ان کی تعداد میں اضافہ کرکے اس کو 272 تک کردیا گیا، اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد اتنی ہی رہی۔

اس بل کو ایک مرتبہ پھر قبول نہیں کیا گیا۔

رکن قومی اسمبلی اسفن یار ایم بھنڈارا کہتے ہیں کہ ’’ہم قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے حقوق کے لیے بلز پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ مردم شماری 1999ء کے بعد سے نہیں کی گئی، مسلمانوں اور غیرمسلموں کی تعداد نامعلوم ہے، مردم شماری اسی لیے ضروری ہے تاکہ اس کے مطابق نشستوں میں اضافہ کیا جاسکے۔‘‘

اسفن یار ایم بھنڈارا نے کہا ’’جیسے ہی مردم شماری ہوجائے گی، نشستوں میں اضافے کا یہ مطالبہ صرف اقلیتی برادری ہی کی طرف سے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے حلقوں کی جانب سے سامنے آئے گا۔ اس میں خواتین کی نشستیں بھی شامل ہوں گی۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے اس وقت ملک خاصی حد تک تقسیم کا شکار ہے اور ان حالات میں مردم شماری ناممکن دکھائی دیتی ہے، اور انہیں محسوس نہیں ہوتا کہ مستقبل قریب میں مردم شماری کی جاسکے گی۔

انہوں نے نشاندہی کی ’’میں اس جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا کہ اقلیتی برادری کے اراکین اسمبلی جب ترقیاتی فنڈز کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں مونگ پھلی کے دانے دے دیے جاتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں چند ملین روپے کے اندر کام کرنا پڑتا ہے، جس سے ایک ترقی پذیر ملک میں خاص طور پر پسماندہ برادریوں کے لیے مشکل سے ہی کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اسفن یار ایم بھنڈارا نے کہا ’’اگرچہ میں حکمران جماعت سے تعلق رکھتا ہوں، پھر بھی میں ہمارے لیے فنڈز کی سنگین کمی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہوں۔‘‘

اسی دوران رکن قومی اسمبلی لال چند ملہی کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں میں اضافے کے لیے پیش کیے جانے والے اس بل کی پیپلزپارٹی کے پچھلے دورِ حکومت کے دوران بھی مخالفت کی گئی تھی۔

اب گوکہ مسلم لیگ ن حزبِ اختلاف کی بینچوں سے حکومتی بینچوں پر براجمان ہے، تاہم یہ اب بھی اس مسئلے سے لاتعلق اور بے حس دکھائی دیتی ہے۔

لال چند ملہی نے کہا ’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ بل بہت زیادہ پیچیدہ تھا، اس لیے کہ اس میں بہت سی چیزوں کا مطالبہ کیا گیا تھا، اور اس کو تیکنیکی بنیادوں پر مسترد کردیا گیا، لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر اسمبلی کے اراکین حقیقی معنوں میں چاہتے تو وہ باآسانی اس بل کو منظور کرسکتے تھے۔‘‘

ان کا کہنا تھا ’’نشستوں میں اضافے اور براہ راست انتخابات کے علاوہ ہم دوہری ووٹنگ اور ڈویژنل بنیادوں پر اقلیتوں کے لیے نشستیں بھی چاہتے تھے۔‘‘

لال چند ملہی مردم شماری کی غیرموجودگی کو بھی بہت زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا، اور مزید کہا کہ قومی اسمبلی کی مجموعی کارکردگی کو ناقص کہنا بھی کم ہوگا۔

اگرچہ جب پاکستان قائم ہوا تھا تو غیر مسلم ملک آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ تھے، یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس کے بعد سے ان کی تعداد میں تیزی کے ساتھ کمی آتی تھی اور اب ان کی تعداد آبادی کا تقریباً صرف چار فیصد حصہ رہ گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں