مصباح الحق ورلڈکپ میں ہمارا اہم ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے، وقار یونس

23 ستمبر 2014
قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس— اے ایف پی فوٹو
قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس— اے ایف پی فوٹو

کراچی : انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے سعید اجمل پر پابندی کو پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے کہا ہے کہ دیگر باﺅلرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ کر بہترین کارکردگی دکھائیں۔

ڈان کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق قومی کپتان نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو جلدازجلد ری گروپ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلنے جانے والے ورلڈکپ 2015 کے ٹائٹل کی دوڑ کی اہم ٹیموں میں شامل ہوسکے۔

انہوں نے کہا"میری دیانتدارانہ رائے میں جب میں کہتا ہوں کہ ہمیں منظم ہونا چاہئے تو ایسا بالکل ممکن ہے، سعید اجمل کی غیرحاضری ایک بڑا دھچکا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کسی بھی کپتان کا خواب ہوسکتا ہے کیونکہ پاورپلے میں اس کی افادیت بہت اہم تھی، مگر میرا اندازہ ہے کہ ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں"۔

نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں قومی ٹی ٹوئنٹی کے دوران انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا"ہم نے سعید اجمل کے ممکنہ متبادل کی تلاش شروع کردی ہے، ٹھیک ہے یہ آسان نہیں کہ ہم اس کے متبادل میں ویسا ہی باﺅلر تلاش کرلیں، کیونکہ اجمل گزشتہ دو سے تین برسوں کے دوران ہر طرز کی کرکٹ میں پاکستان کا مرکزی اسٹرائک بولر رہا ہے، ہر ٹیم اس سے خوفزدہ ہے اور اس کا ریکارڈ خود بتاتا ہے کہ وہ حقیقی میچ ونر ہے"۔

وقار یونس نے کہا"حقیقت پسندی سے کہا جائے تو یہ پاکستان کے لیے مشکل وقت ہے مگر میں پرامید ہوں کہ ہم دیگر کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈال سکیں گے، ہمارے پاس لیگ اسپنر یاسر شاہ کی شکل میں ایک آپشن موجود ہے اور یہاں ذوالفقار بابر بھی ہے جو ایک تجربہ کار باﺅلر ہے، مگر میں شاہد آفریدی اور محمد حفیظ جیسے کھلاڑیوں پر زور دوں گا کہ فرنٹ لائن باﺅلرز کی حیثیت سے مزید ذمہ داریاں اٹھائیں"۔

وقار یونس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سعید اجمل کا کوئی متبادل تیار نہیں کیا گیا" ہم نے یقیناً مخالف سمت پر نظر ڈال کر متبادل کی اہمیت پر توجہ نہیں دی، یہ ایک سخت سبق ہے مگر یہ ایسا سبق بھی ہے جس سے ہمیں سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے"۔

ہیڈ کوچ ورلڈکپ سے قبل فاسٹ باﺅلنگ کمبنیشن سے مطمین نظر آئے اور کہا کہ پاکستان کے پاس اچھا فاسٹ باﺅلنگ اٹیک ہے جسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پیس فرینڈلی کنڈیشنز پر ایڈوانٹیج ملے گا۔

ان کا کہنا تھا"میرے خیال میں اس شعبے میں ہماری بنیادی کافی اچھی ہے، مثال کے طور پر محمد عرفان، جنید خان اور وہاب ریاض ایسے کنڈیشنز میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں جو ان کی مددگار ثابت ہوں اور ہمارے پاس دیگر باﺅلر بھی کافی اچھے ہیں، جبکہ انور علی اور بلاول بھٹی آل راﺅنڈر کا آپشن بھی دیتے ہیں"۔

انہوں نے کہا"ان ممالک میں پچز ہر وینیو میں مختلف ہے، آسٹریلیا میں عام طور پر نیوزی لینڈ کے مقابلے میں زیادہ باﺅنس ہوتا ہے، کچھ مقامات پر تو اسپنرز کو بھی مدد ملتی ہے اور ہماری بنیادی کافی اچھی ہے"۔

پاکستان کی سری لنکا کے خلاف سیریز پر بات کرتے ہوئے وقار یونس نے کہا کہ یہ دورہ ٹیم کے لیے نیند سے بیداری کی کال تھا" وہ ہمارے لیے اچھا ثابت نہیں کیونکہ کوئی بھی ہارنا پسند نہیں کرتا، میں وجوہات تو نہیں پیش کرتا مگر وہ دورہ ہمارے لیے کافی سخت تھا کیونکہ سری لنکا اس سیریز میں انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلنے کے بعد ہمارے سامنے آیا تھا"۔

انہوں نے مزید کہا"اس کے مقابلے میں ہمارے لڑکوں نے چار ماہ سے کوئی میچ نہیں کھیلا تھا، کنڈیشنگ کیمپ اچھا تھا مگر وہ تیاری کے لیے مثالی نہیں، جب آپ کافی طویل عرصے کھیل نہیں رہے ہوتے تو کارکردگی میں کافی فرق پڑتا ہے کیونکہ تربیت مسابقتی مقابلوں سے مختلف ہوتی ہے"۔

وقار یونس دوسری بار پاکستان کے کوچ بنے ہیں اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ اب ٹیم مختلف سوچ کو اپنائے"اب وہ دن گزر گئے جب 270 رنز کے ہدف کا تعاقب مشکل ہوتا تھا، آج کل قوانین میں تبدیلی کے باعث ٹیمیں تین سو کا ہدف بھی حاصل کرلیتی ہیں، میرے خیال میں ہماری ذہنیت میں تبدیلی آنی چاہئے، کھلاڑیوں کو اپنی سوچ کو اچھی ٹیموں کے خلاف مقابلے میں جارحانہ بنانا ہوگا"۔

ان کا کہنا تھا"ہم سکون کے محمل نہیں ہوسکتے، سنیئر کھلاڑیوں کو نوجوانوں کو گائیڈ کرنا چاہئے، ٹیم انتظامیہ کو لگتا ہے کہ سات بلے بازوں کے ساتھ کھیلنا آئیڈیل ہے، فواد عالم اور صہیب مقصود سری لنکا کے خلاف پہلے ون ڈے میں شکست کے وقت مدد کے لیے آگے آئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیم میں ایک اضافی بلے باز تھا"۔

وقار یونس نے کہا"میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ سرفراز احمد کو ون ڈے ٹیم میں ہونا چاہئے، اس کا سری لنکا میں ٹیسٹ ٹور بیٹنگ کے شعبے میں زبردست رہا، میں اس کے دلیرانہ رویے سے متاثر ہوں اور اس جیسے کھلایوں کو ایک روزہ ٹیم کا حصہ ہونا چاہئے، اسد شفیق ایک اور کھلاڑی ہے جسے میں بہت پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ اپنا سر ٹھنڈا رکھتا ہے"۔

وقار یونس کو لگتا ہے کہ ورلڈکپ تک پاکستان کے ٹیسٹ اور ون ڈے کے لیے کپتان رہنے کی تصدیق سے مصباح الحق پر موجود دباﺅ ختم ہوگیا ہے"مصباح اس اعلان سے قبل شدید دباﺅ میں تھا بدقسمتی سے سری لنکا کا دورہ اس کے لیے اچھا نہیں رہا، مگر مجھے یقین ہے اب وہ زیادہ اطمینان محسوس کررہا ہوگا اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز پر اپنی توجہ مرکوز کرسکے گا،تاہم اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہئے جو ٹیم کی ضروریات کے مطابق ہو"۔

ہیڈ کوچ کے بقول"میں اس کے لیے بہترین خواہشات کا اظہار کرتا ہوں وہ ہماری ٹیم کا یونس خان کی طرح لازمی حصہ ہے، ، جو کہ ورلڈکپ میں باﺅنسی ٹریک میں ہمارا اہم ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈکپ کے چیلنج کے موقع پر پاکستان کے حامیوں کو اپنی ٹیم کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے"ہمیں اپنی ماضی کی تاریخ سے سبق لینا چاہئے، میں 1992 کے ورلڈکپ سے چند روز قبل انجرڈ ہوکر ایونٹ سے باہر ہوگیا اور پھر بھی ہم ٹائٹل جیتنے میں کامیاب رہے کیونکہ ہر ایک نے ٹیم کی حمایت کی"۔

ان کا کہنا تھا"ہمیں آج اسی طرح کی حمایت کی ضرورت ہے جو ہماری ٹیم کا جوش بڑھائے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے مگر میں پراعتماد ہوں کہ جب ورلڈکپ شروع ہوگا تو ہم آگے آکر ٹرافی کے حصول کے لیے اپنی مہم کو بڑھائیں گے۔

وقار یونس نے کے مطابق"آخر ہم اس قوم کا حصہ ہیں جس نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود فتح کا تاج اپنے سر پر سجایا ہے"۔

تبصرے (0) بند ہیں