‫پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

‫پاکستان کی سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

سعدیہ امین اور فیصل ظفر

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ پاکستان کو کتنا جانتے اور کتنا سمجھتے ہیں؟ گرد و پیش دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی۔ یعنی اچھے حوالے کم ہی ہوں گے اور جب آپ اتنے خراب حوالوں کے باوجود پاکستان سے اتنی محبت کر سکتے ہیں تو اچھے حوالے محبت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں گے، جس کی کوئی حد نہیں۔

کیونکہ یہاں دنیا کی سب سے خوبصورت وادی کاغان بھی ہے، نامعلوم گہرائی والی پریوں کی جھیل سیف الملوک بھی، سربہ فلک برف پوش چوٹیاں بھی، پرہیبت صحرا بھی یہاں موجود ہیں اور سرسبز وادیاں بھی، یہ سب کچھ دیکھا ہے آپ نے ؟ اگر نہیں تو ہم نے کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے ایک سیریز میں پاکستان کا وہ خوبصورت چہرہ سامنے لائیں جو میڈیا میں منفی رپورٹنگ کے باعث کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے، جس کا آغاز ہم سربہ فلک برف پوش چوٹیوں سے کر چکے ہیں جبکہ اب دوسری کڑی کے طور پر ہمارے ملک کی جنت نظیر جھیلوں کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔


سیف الملوک جھیل


ضلع مانسہرہ کی سب سے مشہور اور خوبصورت جھیل سیف الملوک ہے، جس کا نام یہاں مشہور ایک افسانوی داستان، قصہ سیف الملوک کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ قصہ ایک فارسی شہزادے اور ایک پری کی محبت کی داستان ہے۔ جھیل سیف الملوک وادیٔ کاغان کے شمالی حصے میں واقع ہے، یہ سطح سمندر سے تقریبا 3244 میٹر بلندی پر واقع ہے۔

ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں خاص طور پر جب ناران سے جھیل سیف الملوک تک چودہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اس پر پہلی نظر پڑتی ہے تو ایک جادو سا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے جنت زمین پر اتار دی ہے۔


لولوسر جھیل


لولوسر جھیل مانسہرہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے، ناران چلاس روڈ پر 3353 میٹر بلندی پر واقع لولوسر جھیل ناران کے قصبے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر وادیٔ کاغان اور کوہستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل پر ہر سال روس سے آنے والے پرندے اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔

لولوسر دراصل اونچی پہاڑیوں اور جھیل کے مجموعے کا نام ہے، ناران آنے والے سیاح لولوسر جھیل دیکھنے ضرور آتے ہیں اور غضب ناک دریائے کنہار میں پانی کا بڑا ذریعہ لولوسر جھیل ہی ہے۔ جھیل کا پانی شیشے کی طرح صاف ہے اور لولوسر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں کا عکس جب جھیل کے صاف پانی میں نظر آتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے یہ ایک قابل دید نظارہ ہوتا ہے۔


آنسو جھیل


آنسو جھیل وادیٔ کاغان میں واقع ایک جھیل ہے، جو ضلع مانسہرہ، خیبر پختونخوا میں ملکہ پربت کے پاس واقع ہے۔ لگ بھگ سولہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اس جھیل کو پانی کے قطرے جیسی شکل کی وجہ سے آنسو جھیل کا نام دیا گیا اور یہ دنیا کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔

یہ جھیل درمیان سے برف سے جمی رہتی ہے جس سے یہ کسی آنکھ کی پتلی سے نکلنے والے آنسو جیسی لگتی ہے تاہم یہاں جانے کے خواہش مند افراد کے لیے اس تک رسائی زیادہ آسان نہیں کیونکہ ایک تو یہاں آنے کا بہترین موسم مئی سے اکتوبر ہے اور پھر وہاں رہائش کے لیے کوئی ہوٹل وغیرہ موجود نہیں اور کیمپنگ کرنا پڑتی ہے مگر درجۂ حرارت میں اچانک کمی خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔


دودی پتسر جھیل


دودی پتسر جھیل وادیٔ کاغان کے انتہائی شمال میں 4175 میٹر بلند پر واقع ہے اور یہاں ناران کے علاقے جل کھاڈ (Jalkhad) سے چار گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا جاسکتا ہے، مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں۔ لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے، درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کا نام بھی رکھا گیا۔

یہ علاقہ اپنے جادوئی منظر سیاحوں کو اپنے خیمے یہاں لگا کر قدرتی خوبصورتی اور تنہائی سے لطف اندوز ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، جھیل دودی پتسر بند شکل میں خوبصورت برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی جھیل ہے۔ یہاں تک رسائی انتہائی مشکل اور دشوارگذار کام ہے۔ اس جھیل تک رسائی کے لیے کم از کم سات سے بارہ گھنٹے تک انتہائی مشکل اور دشوار گذار گھاٹیوں میں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہے، جھیل کے اطراف میں چرا گاہیں اور ہرا پانی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔


ستپارہ جھیل


سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے۔

ستپارہ بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں سات دروازے اس کی وجہ یہ ایک دیومالائی کہانی ہے، جو یہ ہے کہ جس جگہ یہ جھیل ہے وہاں صدیوں پہلے ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن اس گاؤں میں کوئی بزرگ فقیر کے بھیس میں لوگوں کو آزمانے کے لیے آئے۔ انہوں نے بستی والوں سے کھانے پینے کی چیزیں مانگی، سوائے ایک بڑھیا کے کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ اس بزرگ نے بستی والوں سے ناراض ہو کر انہیں بد دعا دی لیکن ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کی کہ نیک بڑھیا جس نے ان کی مدد کی تھی، اسے کچھ نقصان نہ پہنچے۔ دعا قبول ہوئی اور راتوں رات گاؤں الٹ گیا اور اس کی جگہ پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جس جگہ نیک دل بڑھیا کا گھر تھا وہاں پانی اس سے دور رہا، یوں یہ جزیرہ آج بھی سلامت ہے۔


رش جھیل


رش جھیل پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے اور یہ 5098 میٹر کی بلندی پر رش پری نامی چوٹی کے نزدیک واقع ہے۔ یہ دنیا کی پچیسویں بلند ترین چوٹی پر واقع جھیل ہے، یہاں تک رسائی کے لئے نگر اور ہوپر گلیشیئر کے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور اس راستے نہایت ہی دلفریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔


کرمبر جھیل


کرمبر جھیل خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان کے درمیان میں واقع ہے اور یہ پاکستان کی دوسری جبکہ دنیا کی 31 ویں بلند ترین جھیل ہے- 14121 فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل حیاتیاتی طور پر ایک فعال جھیل ہے، اس جھیل کی گہرائی تقریباً 55 میٹر٬ لمبائی تقریباً 4 کلو میٹر اور چوڑائی 2 کلو میٹر ہے-

بروغل کی وادی میں واقع یہ خوبصورت جھیل چترال شہر سے ڈھائی سو کلو میٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے، بروغل کی وادی اپنے خوبصورت قدرتی مناظر، برف پوش چوٹیوں، شاندار کرمبر جھیل اور پچیس سے زیادہ چھوٹی جھیلوں کے ساتھ تین اہم گزرگاہوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ گزرگاہیں اس وادی کو مغرب میں کانخن پاس کے ذریعے واخان کوریڈور سے ملاتی ہیں۔


ہالیجی جھیل


ہالیجی جھیل کراچی سے 80 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ لگ بھگ بائیس ہزار ایکڑ پر مشتمل جھیل کا قطر اٹھارہ کلو میٹر ہے۔ ہالیجی جھیل پر کبھی موسمِ سرما میں لاکھوں پرندے ہجرت کرکے عارضی بسیرا کرتے تھے۔

یہاں پرندوں کے سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں مگر اب یہاں بدیسی موسمی پرندے 'خال خال' ہی نظر آتے ہیں۔ صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل ایک طرف رفتہ رفتہ خشک ہو رہی ہے تو دوسری جانب خود رو جھاڑیاں تیزی سے اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔


شنگریلا جھیل یا کچورا جھیل


شنگریلا جھیل پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی ایک خوبصورت جھیل ہے۔ جو کہ اسکردو شہر سے بیس منٹ کی ڈرائیو کے فاصلے پر ہے۔ بنیادی طور پر کچورا جھیل دو جھیلیں ہیں جن میں سے ایک کو 'اپر کچورا جھیل' اور دوسری کو 'لوئر کچورا جھیل' یا شنگریلا جھیل کہتے ہیں۔


اپر کچورا جھیل


اپر کچورا جھیل صاف پانی کی جھیل ہے جس کی گہرائی تقریباً 70 میٹر ہے، دریائے سندھ اس کے قریب ہی قدرے گہرائی میں بہتا ہے، گرمیوں میں دن کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بہت نیچے گر جاتا ہے جس کی وجہ سے جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ اسی طرح لوئر کچورا یا شنگریلا جھیل کو پاکستان کی دوسری خوبصورت ترین جھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا نظارہ کسی پر بھی سحر طاری کرسکتا ہے۔


لوئر کچورا جھیل


لوئر کچورا جھیل یا شنگریلا جھیل اصل میں شنگریلا ریسٹ ہاؤس کا حصّہ ہے، یہ سیاحوں کے لیے ایک مشہور تفریح گاہ ہے جو کہ اسکردو شہر سے بذریعہ گاڑی تقریباً 25 منٹ کی دوری پر ہے- شنگریلا ریسٹ ہاؤس کی خاص بات اس میں موجود ریسٹورنٹ ہے جو کہ ایک ایئر کرافٹ کے ڈھانچے میں بنایا گیا ہے، شنگریلا ریسٹ ہاؤس چینی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے کے لیے آتی ہے۔


شندور جھیل


پولو گراؤنڈ کے ساتھ شندور جھیل تخلیق فطرت کا عظیم شاہکار لگتی ہے۔ اس کی لمبائی تین میل اور چوڑائی ایک میل ہے۔ اس جھیل میں نایاب پرندے بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھیل کے پانی کا ظاہری اخراج نہیں ہوتا یعنی پانی جھیل میں ٹھہرا دکھائی دیتا ہے مگر ماہرین کے مطابق پانی زیر زمین راستہ بنا کر سولاسپور اور لنگر میں جانکلتا ہے۔


ہنہ جھیل


کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894 میں تاج برطانیہ کے دور میں لوگوں کو سستی فراہمی زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔1894 سے1997 تک جھیل میں پانی کی سطح برقرار رہی، تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے 2000 سے 2004 تک جھیل مکمل خشک رہی۔

سالانہ لاکھوں روپے ٹکٹوں کی مد میں وصول کرنے کے باوجود جھیل کی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہنہ جھیل میں اب پانی کی سطح بتدریج گرنا شروع ہوگئی ہے اس وقت پانی کی سطح کم ہو کر آٹھ فٹ رہ گئی ہے۔ پانی کی گرتی ہوئی سطح سے جہاں سائبیریا کے پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت و تفریح متاثر ہوئے ہیں وہیں آس پاس کے باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔


رتی گلی جھیل


سطح سمندر سے 12000 فٹ بلندی پر واقع رتی گلی جھیل وادیٔ نیلم کے ماتھے کا جھومر ہے، مظفر آباد سے 115 کلو میٹر دور وادیٔ نیلم کے سرسبز اور بلند و بالا پہاڑوں کے دل میں واقع رتی گلی جھیل قدرت کا حسین اور انمول تحفہ ہے۔ اس جھیل کے اردگرد وسیع و عریض سرسبز میدان انتہائی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

جھیل کے چہاروں اطراف کھلے میدانوں میں علاقے کے چرواہے ہزاروں مویشیوں کو پالتے ہیں۔ رتی گلی جھیل کے نیلگوں پانی اور کناروں پر جمی برف یہاں آنے والوں پر سحر طاری کرتی ہے۔


تصاویر: بشکریہ وکی پیڈیا اور وکی میڈیا کامنز