الیکشن کمیشن 2010 سے بغیر ضوابط کے کام کرنے پر مجبور

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2014
الیکشن کمیشن آف پاکستان— فائل فوٹو
الیکشن کمیشن آف پاکستان— فائل فوٹو

لاہور : الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد 2010 سے رولز آف بزنس کے بغیر کام کررہا ہے جس سے ادارے کا کام متاثر ہوا ہے۔

ای سی پی ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ رولز آف بزنس کی عدم حاضری کی بناءپر کمیشن کے اراکین کو چیف الیکشن کمشنر کو اعتماد میں لیے بغیر نیشنل کمیشن اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کرنے کا موقع ملا۔

رولز آف بزنس کسی ادارے کے سربراہ، مالیاتی اور انتظامیہ اختیارات اور دیگر اداروں سے رابطے کے طریقہ کار، ذمہ داریوں اور افعال کی وضاحت کرتے ہیں۔

مگر ای سی پی ان ضوابط کے بغیر ہی کام کررہا ہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں کمیشن اراکین کے درمیاں اختیارات کی تقسیم کی تفصیلات ہی موجود نہیں۔

عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ یہی وجہ ہے کہ اراکین نے متعدد فیصلے چیف الیکشن کمشنر کو اعتماد میں لیے بغیر کیے۔

اس کا کہنا تھا کہ ای سی پی کے متعدد احکامات سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کے دستخطوں کے بغیر ہی جاری ہوئے اور اراکین نے اپنے فیصلوں کے لیے انہیں سائیڈلائن کردیا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ رولز نہ ہونے کی وجہ سے چیف الیکشن کمشنر علامتی سربراہ بن کر رہ گئے ہیں، جو اپنے نچلے عہدوں کے ماتحتوں کے خلاف بھی بے ضابطگیوں پر ایکشن لینے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔

عہدیدار کے مطابق آرٹیکل 221 کے تحت الیکشن کمیشن کو پارلیمنٹ کی جانب سے مدد نہ ملنے پر اپنے ضوابط کود بنانے کا اختیار حاصل ہے، مگر اب تک یہ کام نہ تو پارلیمنٹ نے کیا ہے اور نہ ہی چیف الیکشن کمشنر نے۔

اس نے بتایا کہ نئے ضوابط کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب اٹھارویں ترمیم کے باعث آرٹیکل 221 میں تبدیلی لاتے ہوئے لفظ کمشنر کو الیکشن کمیشن سے بدل دیا گیا۔

اس معاملے پر بات کے لیے سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد فون پر دستیاب نہیں ہوسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں