بڑھتے پولیو کیسز کے خلاف حکومتی حکمت عملی نہ ہونے کے برابر

25 ستمبر 2014
ایک بچے کو پولیو ویکسین پلائی جارہی ہے— فائل فوٹو
ایک بچے کو پولیو ویکسین پلائی جارہی ہے— فائل فوٹو

اسلام آباد : اگرچہ ملک میں پولیو کیسز کی تعداد بڑھنے سے حکومت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا ہے تاہم صحت کے محکموں کی جانب سے صرف اجلاس اور ایک دوسرے کو تجاویز دینے کے علاوہ کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔

بدھ کے روز وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز(این ایچ ایس) سائرہ افصل تارڑ نے ایک بار پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تاکہ پولیو کیسز کی بڑھتی تعداد پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔

اجلاس کے شرکاءنے کہا کہ صوبوں کو اس مرض کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھانا چاہئے۔

اجلاس میں شریک ایک فرد نے نام چھپانے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ اس مرض کی روک تھام میں ناکامی پر متعلقہ افسران کی ذمہ داری کا تعین کرنے کی بجائے ایک بار پھر سیکرٹری صحت محمد ایوب شیخ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو صوبون کا دورہ کرکے ان کی خامیوں کا جائزہ لے گی۔

منگل کو اقوا متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان کو دنیا کو پولیو سے پاک قرار دینے میں بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا، عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارگریٹ چن نے جنرل اسمبلی کے پولیو پر ہونے والے غیررسمی اجلاس میں بتایا" پاکستان پولیو کے خاتمے میں واحد سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس وقت وہاں ملک بھر میں بڑی تعداد میں پولیو کیسز سامنے آئے ہیں"۔

انہوں نے کہا"اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ پولیو سے معذور ہونے والے ہر دس میں سے لگ بھگ نو بچے پاکستان میں مقیم ہیں، رواں برس دنیا مین 178 کیسز سامنے آئے جن میں سے 166 کا تعلق پاکستان سے ہے، اس بارے میں سوچے، یہ اعدادوشمار ڈرامائی ہیں"۔

ڈاکٹر مارگریٹ نے کے پی حکومت اور فوج کی کوششوں کا بھی ذکر کیا" پشاور کی سیاسی اور مقامی قیادت نے ثابت کیا ہے کہ ویکسین مہم کو سیکیورٹی سانحے کے بغیر بھی چلایا جاسکتا ہے، خیبرایجنسی میں فوجی کمانڈرز کو چاہئے کہ اس علاقے میں ہر بچے تک رسائی اور ویکسنیشن کو یقینی بنائیں"۔

انہوں نے مزید کہا"رواں سال موسم گرما کے دوران وزیرستان کے لاکھوں افراد کو ٹرانزٹ پوسٹوں میں پولیو کے قطرے پلائے گئے، تاہم اس مقامی کامیابی کی کہانیوں کو توسیع دے کر ملک گیر سطح پر اس مرض کے خاتمے کی کوششین کرنی چاہئے، اس کے بغیر پاکستان میں اس مرض کے پھیلنے اور سیٹ بیک کا خطرہ موجود رہے گا"۔

مگر وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ایک بار پھر پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوششوں کا فیصلہ کیا گیا۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی حکومت پولیو ویکسین کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنائے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے اور ضلعی حکومتیں اپنی کوششوں کو دوگنا بڑھادیں اور مہم کے معیار میں موجود خلاءکو بھرے۔

وزارت کے ایک عہدیدار نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ اگرچہ اجلاس کے شرکاءنے کہا ہے کہ ویکسین کو مک بھر میں فراہم کیا جائے گا اور آپریشنل اخراجات کا کوئی مسئلہ نہیں مگر زمینی حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔

اس کا کہنا تھا"گزشتہ ایک برس کے دوران اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے قرضے کے حصول کے لیے پی سی ون کی منظوری نہیں دی جس سے آپریشنل اخراجات پورے کیے جانے تھے، جس کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان میں پولیو مہمیں پولیو ویکسین کی فراہمی کے مسئلے کے باعث تاخیر کا شکار ہوگئیں، پولیو ورکرز کو بھی ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا"۔

اس نے مزید بتایا کہ اجلاس میں شرکا نے یہ کہہ کر اپنا دفاع کرنےک ی کوشش کی 171 میں سے 158 کیسز فاٹا اور کے پی میں سامنے آئے ہین مگر وہ اس قومی مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا"درحقیقت شرکاءنے صرف اس امید کا اظہار کیا کہ فاٹا میں قیام امن کے بعد پولیو کے مسئلے کو حل کرلیا جائے گا"۔

عہدیدار نے کہا کہ بڑی تعداد میں والدین اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کے لیے تیار نہیں مگر حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، اس حوالے سے خصوصی قانون سازی کی جانی چاہئے اور انکر کو جرم قرار دیا جانا چاہئے۔

وزیراعظم پولیو سیل کے ٹیکنیکل سربراہ ڈاکٹر الطاف بوسن جو اس اجلاس میں شریک بھی تھے، نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے فیصلہ کیا ہے کہ نومبر میں ملک بھر میں پولیو کے خلاف بڑی مہم شروع کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ نومبر میں وائرس کی منتقلی کی شرح کم ہوتی ہے اور یہ وقت اس پر حملہ کرنے کے لیے بہترین ہے، اس کے علاوہ صوبوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنے کی حکمت عملی بھی تیار کی جارہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں