کراچی دھماکے میں نشانہ بن جانے والے نوجوان کی دردناک کہانی

27 ستمبر 2014
کلیم اللہ کا کزن اور بہترین دوست محمد اکرام مقتول کی تصویر اپنے موبائل فون پر دکھا رہا ہے— وائٹ اسٹار فوٹو
کلیم اللہ کا کزن اور بہترین دوست محمد اکرام مقتول کی تصویر اپنے موبائل فون پر دکھا رہا ہے— وائٹ اسٹار فوٹو

کراچی : کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز فور میں گزری قبرستان کے گیٹ نمبر پانچ کے قریب جمعرات کو ہونے والے بم دھماکے، جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے، اگلے روز کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے متعدد ملازمین سڑک کی صفائی اور نقصان کی مرمت میں مصروف رہے تاکہ اس جگہ کو عوام کے لیے دوبارہ کھولا جاسکے۔

قبرستان کی دیوار کے ویران کونے میں صفائی کرنے والوں نے شیشے کے ٹکڑے، درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخیں اور پتے کچرا اٹھانے والے ٹرک کے انتطار میں جمع کردیئے تھے۔

قریبی علاقے کے کچھ افراد بم دھماکے سے ہونے والے نقصان کی تصاویر لیتے رہے، جیسے سڑک پر گڑھے، گھروں کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں اور متاثرہ بل بورڈ، کسی نے پلانٹ نرسری کے باہر ایک جگہ کی نشاندہی کی جہاں عبدالغفور جوکچھ ورزش اور تازہ ہوا کے لیے آتا تھا، ہلاک ہوا تھا۔

دوسری ہلاکت وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ہوئی جہاں خون کے دھبے ابھی بھی واضح طور پر روڈ پر دیکھے جاسکتے تھے، یہ فاسٹ فوڈ کی ڈیلیوری کرنے والا لڑکا کلیم اللہ تھا جو اپنی زندگی سے محروم ہوگیا۔

بتایا گیا ہے کہ عبدالغفور فیز فور یا فائیو کے قریب کہیں رہتا تھا جبکہ کچھ افراد نے بتایا کہ دھماکے کے وقت وہ اپنی گاڑی میں تھا اور شیشہ ٹوٹنے سے وہ شدید زخی ہوا، جبکہ دیگر افراد کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت چہل قدمی یا جوگنگ کے لیے گاڑی سے باہر تھا۔

جمعے کو دھماکے کے مقام پر موجود کچھ افراد نے بتایا کہ عبدالغفور ایک کاروباری شخص تھا جو زمزمہ میں رہائش پذیر تھا، مگر لگ بھگ سب افراد ڈیلیوری بوائے کلیم اللہ سے واقف تھے، جو کہ کھڈا مارکیٹ کا ایک جانا پہچانا چہرہ تھا اور وہ خیابان شمشیر میں حنیفیہ ہنٹر بیف اینڈ برگر نامی ریسٹورنٹ میں کام کرتا تھا۔

کلیم اللہ وہاں گزشتہ تیرہ سال سے ویٹر اور ڈیلیوری بوائے کی حیثیت سے کام کررہاتھا۔

فاسٹ فوڈ چین کے مالک محمد سعید کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھری ہوئی تھیں اور وہ کہہ رہا تھا"وہ صرف ایک ملازم نہیں میرے لیے بیٹے جیسا تھا، اس کا بچوں جیسا چہرہ بہت معصوم تھا، اور ایسا لگتا تھا کہ ابھی اس کا لڑکپن ختم نہیں ہوا"۔

اس کے بعد محمد سعید خاموشی سے بیٹھ کر کلیم اللہ کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا کرنے میں مصروف ہوگیا جس کا اہتمام اس نے اپنی دکان میں کیا تھا۔

محمد اکرام کلیم اللہ کا کزن ہے جو اسی علاقے کے ایک اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے"میں ایک گاڑی سے پیزا کا آرڈر لے رہا تھا اور کلیم سے بات کررہا تھا،جب میں پیزا لے کر گاڑی کی جانب گیا تو وہ موٹرسائیکل پر سوار ہوکر ایک گھر پر ڈیلیوری دینے چلا گیا، وہ آخری موقع تھا جب میں نے اسے دیکھا"۔

اس کا کہنا تھا کہ وہ کلیم اللہ کے ساتھ تیرہ سال قبل رحیم یار خان سے کراچی آیا تھا"ہم اس وقت نوجوان تھے اور کلیم اللہ نے مڈل تک تعلیم حاصل کررکھی تھی"۔

اس نے مزید بتایا"کلیم کو جلد ہی حیفیہ میں ملازمت مل گئی جبکہ اس کے سامنے ریسٹورنٹ میں کام کرنے لگا، کلیم چھ بھائیوں اور دوبہنوں میں دوسرے نمبر پر تھا، جلد ہی اس کے دوبھائی بھی کراچی ااگئے اور یہان ویٹرز کے طور پر کام کرنے لگے"۔

ایک بھائی کو ہاٹ اینڈ اسپائسی میں ملازمت ملی جبکہ دوسرا حنیفیہ میں کلیم کے ساتھ لگ گیا، اس خاندان نے اپنی ایک بیٹی کی شادی کے موقع پر ایک جاگیردار سے بہت زیادہ قرضہ لے رکھا تھا اور رحیم یار خان میں انہیں روزگار دستیاب نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ اس قرضے کی ادائیگی کے لیے کلیم سخت محنت کررہا تھا۔

محمد اکرام کے مطابق"ٹپس اور تنخواہ کو ملا کر ہم بارہ سے پندرہ ہزار روپے مہینہ کمالیتے تھے، وہ کہتا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی جو اس کے ساتھ ہی کام کررہا تھا، کو سعودی عرب بھجوانے کے لیے رقم جمع کررہا ہے اور اس کے لیے ورک ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے، ہم نے گزری میں ایک چھوٹا کوارٹر کرائے پر لے رکھا تھا، جہاں وہ اکثر مجھے یہ باتیں بتاتا تھا، اپنے موت سے ایک دن پہلے آخر بار ایسی ہی بات چیت میں اس نے اپنے خوابوں کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ اپنی شادی سے پہلے تمام بھائیوں اور بہنوں کی شادیاں کرائے گا"۔

تبصرے (1) بند ہیں

Heart broken Sep 27, 2014 09:06am
Its very heartbreaking story. Writer did a great job for those who are responsible for his death. It's very unfortunate that in our people have to travel faraway to find a job.