پالیسی سازی کا فن

30 ستمبر 2014
پنجاب میں باربارآنے والے سیلاب نے فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے درمیان خلا کو بےنقاب کردیا ہے۔
پنجاب میں باربارآنے والے سیلاب نے فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے درمیان خلا کو بےنقاب کردیا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ واقعی کسی چیز سے پیار کرتے ہیں تو ساری کائنات مل کر کوشش کرتی ہے کہ آپ کو وہ چیزمل جائے۔ ایک قوم کے طور پر اگر ہمیں جمہوریت یا گڈ گورننس سے محبت ہوتی تو وہ ہمیں کب کی مل چکی ہوتی۔ ہم تو ایک ایسی قوم ہیں جو سازشوں کی تھیوری سے بے حد محبت کرتے ہیں جب ہی تو آزادی کی چھ دہائیوں کے بعد بھی یہ شے ہمارے پاس بےحد و حساب ہے۔

اگر آپ ملک کی آبادی کے بہت زیادہ غیر محفوظ حصے کے لیے صحت کے مراکز یا پینے کے صاف پانی کے حصول کی ضرورت پر بڑی محنت اور ریسرچ کے بعد ایک مضمون ایک بہت زیادہ پڑھے جانے والے اخبار کے لیے لکھتے ہیں تو صرف چند گنے چنے لوگ ہی اس کا نوٹس لیں گے۔ اس کے برخلاف آپ جڑواں شہروں میں اقتدارکی راہداریوں میں سازشی تھیوری اور محلاتی ساز باز کی فرضی کشمکش کے بارے میں لکھیں تو ہر وہ شخص جو کچھ بھی ہے وہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا اور اس کا نوٹس لےگا۔ یہ ایسی ستم ظریفی ہے کہ جب پالیسی بنانے کی بات ہوتی ہے تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات اور عام لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔

ساری دنیا میں پالیسی سازی صرف سیاستدانوں کا ہی کام نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسا طریقۂ کار ہے جس میں سارے شراکت داروں کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ ایک بیوروکریٹ کا کام اس پالیسی کا نفاذ ہوتا ہے؛ اس لیے ان کا مشورہ ضروری ہوگا۔ اور سیاستدان تو وہ قائد ہوتا ہے جو عوام کے اندر ان پالیسیوں کو اپنانے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ سول سوسائٹی اور رائے ساز عناصرایک تعمیری نقاد کا رول ادا کرتے ہیں تاکہ اس کا نتیجہ ایک ایسی بہترین پالیسی ہو جو وسائل کے مناسب ترین استعمال کا طریقہ فراہم کرے۔ محدود وسائل والا ایک ملک پالیسی سازی کے ایسے ہی اصولوں پر عمل کرکے ترقی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔

سیڑھی کا دوسرا زینہ فیصلہ لینے کا عمل ہے، اس میں بھی اسی معاونت کے اصولوں پر کاربند رہنا ضروری ہے۔

ہمارے ملک میں صلاح ومشورے کا جو طریقہ ہے وہ صرف دکھاوے کا ہے؛ اس میں گہرائی نہیں ہوتی۔ جب تک اس میں گہرائی نہ پیدا کی جائے، پالیسی سازی بے مقصد ہی رہے گی۔ لوگوں کے اصل مسائل پر کیوں کسی کی توجہ نہیں ہے جبکہ طاقت کے حصول کی مرکزی اہمیت ہوتی ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے راکٹ سائینٹسٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں پالیسی سازی ضروری ہے، لیکن سیاسی فائدہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے اور ہر فیصلہ سازی کی اساس ہے۔ فیصلہ سازی پر ہماری توجہ کی اہمیت صرف اس حد تک ہے کہ یہ سیاسی پارٹیوں کے منشور کا ایک حصہ ہے، جو شاید ان کی قیادت بھی کبھی نہیں پڑھتی، اس کا نفاذ تو دور کی بات ہے۔

پنجاب میں باربارآنے والے سیلاب نے فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے درمیان خلا کو بےنقاب کردیا ہے۔ جہاں 74 ارب روپے کی رقم چند میٹرو بسوں کے منصوبوں کے لیے آسانی سے خرچ کردی جاتی ہے کیونکہ اس سے سیاسی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے، جبکہ چینوٹ کے نزدیک ایک ڈیم کی تعمیرکا منصوبہ، جو تقریباً 24 ارب روپے سے ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کی تجویز کے مطابق تعمیر کیا جانا تھا، 2009ء سے فنڈ کی کمی کی وجہ سے سرد خانے کا شکار ہے، حالانکہ اس سے سیلاب کی تباہیوں کو روکا جاسکتا تھا۔ لیکن میڈیا، دانشوروں، بیوروکریٹس، اور سیاستدانوں کو انوکھی چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ عوام تو خاموشی سے ظلم سہتے ہیں۔

پاکستان میں عموماً مانا ہوا لیکن ایک غلط تصور رائج ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے منتخب نمائندہ ہونے کی وجہ سے سیاستدانوں کوپالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں سب سے برتر حیثیت حاصل ہے۔ اس کے برخلاف، یہ سسٹم کی خامی ہے جو اسے بیوروکریٹ، ٹیکنوکریٹ اورنقادوں کی رائے کو نظرانداز کرنے کا اختیار دیتی ہے۔

وہ ووٹ بینک جو ایک سیاستدان کوفیصلہ ساز اور پالیسی ساز کا رتبہ دیتا ہے اسے اس عہدہ کے لیے ایک اجازت نامہ تصور کرنا چاہیے، وہی عہدہ ایک بیوروکریٹ، ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک ناقد اپنی انتظامی صلاحیتوں، تعلیمی استعداد اورتنقیدی تجزیے کی صلاحیت کی بنا پر حاصل کرتا ہے۔ ایک مرتبہ وہاں پہنچنے کے بعد، دوسروں پر برتری کے تمام گمان کو ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ صرف تب ہی، شخصی تعصبات اورذاتی ترجیحات سے پیچھا چھڑا کر پالیسی سازی ممکن ہوگی۔

میں اس وقت کے لیے پرامید ہوں جب سرکاری افسروں کی یہ بھیڑ جوسیاستدانوں کے اشاروں پر ناچ رہی ہے، اس میں سے ایک خود اعتماد افسر اٹھ کھڑا ہوگا، اور ان کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے خیالات کا اظہار اور بغیر کسی مبالغے کے اعدادوشمار بتانے کا حوصلہ کرے گا۔ اس جماعت کی تیسری حکمرانی کی مدت میں اب تک کی واقعاتی شہادتوں سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔

ہماری افواہ سازی اور گپ بازی کی محبت اکثر مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ آج کے مواصلات کی سہولت کے زمانے میں پنجاب میں سیلاب کے اثرات سے نمٹنے کا سب سے موثر طریقہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ وزیراعلیٰ کے سکریٹریٹ میں ایک کنٹرول سینٹر قائم کیا جاتا: سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی انتظامیہ کی ساری توجہ بجائے سیلاب زدگان کی بہتری کے، وی وی آئی پی کے استقبال کی جانب ہوجاتی ہے۔

بہرحال، مجھے اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے ایسا طریقہ چنا جس سے ان کو زیادہ سے زیادہ نمبر ملے اوران کے لانگ بوٹس بھی استعمال کرنے کا موقع ملے جو بیکار پڑے ہوئے تھے۔ مگر انصاف کی بات ہے کہ اگر وزیراعلیٰ سیلاب کے پانی میں نہ کود پڑتے، تو ہمارا میڈیا اپنے آرام دہ ٹھکانے سے باہر نہ نکلنے پر ان پر تنقید کر رہا ہوتا۔

اس ملک کی صورت حال ایک سرکس کی مانند ہے جس میں تماش بینوں (عام لوگوں) تالے لگا کر اندر بند کردیا گیا ہے جب تک تماشہ جاری رہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: علی مظفر جعفری


لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں