اسلام آباد: سندھ رینجرز نے کراچی آپریشن کے حوالے سے مکمل رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو پیش کرتے ہوئے ڈیڑھ ہزار سے زائد مجرموں کی گرفتاری اور دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت داخلہ کا اجلاس چیئرپرسن اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں سندھ رینجرز نے کراچی آپریشن کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ قائمہ کمیٹی میں پیش کی۔

ذرائع کے مطابق رینجرز آفیشل کرنل طاہر محمود نے کہا کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں ایک سال کے دوران دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کی کمر توڑ دی ہے۔

رینجرز حکام کے مطابق آپریشن کے دوران کالعدم امن کمیٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک طالبان پاکستان سمیت متعدد کالعدم تنظیموں کے سیکڑوں کارکن گرفتار کیے گئے۔

ذرائع کے مطابق انہوں نے بتایا کہ کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے دفاتر پر 373 چھاپے مارے گئے اور 560 کارکنوں کو گرفتار کر کے بھاری تعداد میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے الزام عائد کیا تھا کہ کراچی میں جاری آپریشن میں صرف ایم کے دفاتر اور کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دیگر جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔

رینجرز کے کرنل طاہرمحمود نے بتایا کہ گلشن معمار میں رینجرز پر فائرنگ کے بعد سرچ آپریشن کیا گیا جس میں 23 افراد کو حراست میں لیا گیا، ان میں تین بدنام ٹارگٹ کلر بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ گلشن معمار میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپے کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی کے مختلف مقامات پر دھرنا دیتے ہوئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ان تینوں ٹارگٹ کلرز سمیت 143 انتہائی مطلوب افراد کی فہرست گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو پیش کیے گئے۔

کرنل محمود نے بتایا کہ گرفتار ملزمان میں سے آٹھ اشتہاری تھے اور متعدد وارداتوں میں ملوث تھے، انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے جبکہ بقیہ 12 افراد متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے ارکان سندھ اسمبلی فیصل سبزواری اور ڈاکٹر صغیر کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے دفاتر پر 18 چھاپے مار کر 40 افراد گرفتار کیے اور مختلف نوعیت کے 21 ہتھیار برآمد کیے۔

رینجرز آفیشل کے مطابق کالعدم پیپلز امن کمیٹی کیخلاف 396 چھاپے مار کر 539 افراد گرفتار کئے اور 591 ہتھیار برآمد کیے گئے۔

کالعدم تحریک طالبان کیخلاف چھاپوں 60 مبینہ دہشت گرد گرفتار کیے گئے جن کے قبضے سے مختلف اقسام کے 619 ہتھیار برآمد کیے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ دیگر کالعدم تنظیموں کیخلاف 159 چھاپے مارے گئے اور 352 افراد کو گرفتار کرکے 463 ہتھیار برآمد کیے۔

سینیٹ کی قائم کمیٹی برائے داخلہ کو پیش کی گئی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس کے علاوہ شہر کے مختلف مقامات پر دو ہزار 347 عام چھاپے مارے گئے جن کے دوران چار ہزار 584 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

گرفتار ملزمان کی صحیح تعداد جاننے کے لیے ترجمان رینجرز سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کردیا۔

ترجمان رینجرز میجر سبطین کے مطابق یہ تعداد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتائی گئی ہے اور انہیں میڈیا کے نمائندوں کو یہ تعداد بتانے کی اجازت نہیں۔

اجلاس میں میں اے این پی اور پیپلز پارٹی نے کراچی آپریشن کی حمایت جبکہ ایم کیو ایم نے کہا کہ اس آپریشن کے ذریعے ریاست کے بنیادیں ہلائی جارہی ہیں۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگلا اجلاس کراچی میں ہوگا جس میں رینجرز حکام کراچی ٹارگٹڈ آپریشنز کی تمام تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

قائمہ کمیٹی نے رینجرزکی تجویز پر کراچی کے دبئی چوک اور گل محمد لین میں دو تھانے بنانے کی بھی سفارش کردی۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی فیصل سبزواری نے رپورٹ کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے صرف 60 مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جبکہ ایم کیو ایم کے 560 کارکنوں کو پکڑا گیا، ان اعدادوشمار کے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ رینجرز کی زیر قیادت آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کی ترجیحات کیا ہیں۔

گلشن معمار سے تارگٹ کلرز پکڑنے کے الزامات کے حوالے سے فیصل سبزواری نے کہا کہ ایم کیو ایم اس معاملے پر عدالت جائے گی۔

’اگر رینجرز یا پولیس کے پاس ثبوت ہیں تو ایم کیو ایم کسی بھی مجرم کی حمایت نہیں کرے گی لیکن کارکنوں کو سراسر ایم کیو ایم سے تعلق پر گرفتار کیا گیا۔

اس موقع پر انہوں نے گرفتار کارکنوں کی تعداد کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے کم از کم 700 کارکنوں کو جیل بھیجا گیا جبکہ آپریشن شروع ہوے کے بعد سے اب تک ہزاروں پارٹی کارکنوں اور ہمدردوں کو پکڑا جا چکا ہے۔

سبزواری نے کہا کہ آپریشن کے دوران حکومتی سرپرستی کے حامل گروپوں اور دہشت گرد تنظیموں کی کم تعداد میں گرفتاری سے سیکیورٹی فورسز کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں