اسلام آباد: دارالکومت میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں پولیو وائرس کی تشخیص کرنے والی لیبارٹری نے گزشتہ روز ملک میں دس نئے پولیو کیسز کی تصدیق کی ہے جس کے بعد رواں سال پولیو کیسز کی تعداد اب 184 سے تجاوز کرچکی ہے۔

پولیو کی نگرانی اور رابطے کے لیے وزیراعظم کے سیل میں ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں چھ نئے کیسز، دو صوبہ خیبر پختونخوا جبکہ دو ہی نئے کیس سندھ میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ بنوں میں دو نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں بچکی وزیر گاؤں میں ایک دس سالہ بچہ اور ذلول خیل گاؤں میں چھ ماہ کی بچی شامل ہے۔

اسی طرح قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں ایک چھ ماہ کے بچے میں اس مہلک وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، جس کا تعلق میرا اکا خیل سے ہے۔

جبکہ ایک سات ماہ کی بچی جس کا تعلق نواز خان خیل سے ہے، میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

اسی طرح گاؤں عجب تالاب میں پندرہ ماہ کی ایک بچی، اور میرا اکا خیل سے تعلق رکھنے والی ایک بارہ سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں 48 ماہ کی ایک بچی میں پولیو وائرس پایا گیا جس کا تعلق کوگا یونین کونسل کے ایک گاؤں سے بتایا جاتا ہے، جبکہ میر یونین کونسل کے قریب مردان تحصیل کے ایک گاؤں محمد آباد میں ایک چودہ ماہ کے بچے میں بھی اس مہلک وائرس کی تصدیق ہوئی۔

صوبہ سندھ میں رپورٹ ہونے والے دونوں کیسز سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن میں سامنے آئے ہیں۔

گڈاپ کے علاقے موسیٰ مارکیٹ میں افغان آباد میں ایک مہینے کی بچی میں پولیو وائرس پایا گیا، جبکہ مدینہ مدرسہ کے قریب جنر گوٹھ کے علاقے یو سی پانچ میں ایک 25 ماہ کے بچے میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سن 2012ء سے پولیو کے قطرے پلانے پر طالبان کی پابندی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں اب تک انسدادِ پولیو مہم بھرپور طریقے سے شروع نہیں کی جاسکی ہے۔

ان کا کہنا تھا سندھ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیو کے نئے کیس ان بچوں میں سامنے آئے ہیں جن کے والدین نے انہیں ویکسین دینے سے انکار کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیو پر ایک آزاد مانٹرینگ سیل ( آئی ایم بی پی) کا اجلاس منگل کو لندن میں ہوگا جہاں پاکستان اپنا دفاع کرے گا۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ آئی ایم بی پی نے رواں سال دو جون کو پاکستان کے لیے دو سفارشات دیں تھیں، جن میں وزیراعظم کی جانب سے پولیو کے قائم کیے گئے سیل کو غیر مؤثر قرار دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں