اسلام آباد: اگرچہ پیر کے روز تین کروڑ اکتالیس لاکھ ساٹھ ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ملک گیر مہم کا آغاز ہوگیا ہے، لیکن اس مہم کے پہلے ہی روز پشاور شہر میں 16 ہزار سات سو ستاون بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے نہیں جاسکے، اس لیے کہ ان کے والدین نے اس سے انکار کردیا تھا۔

تاہم حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے قومی مینیجر ڈاکٹر رانا صفدر کا کہنا ہے کہ ان والدین کے بارے میں اعدادوشمار اکھٹے کرلیے گئے ہیں، اور ان بچوں کو شہر کی بااثر شخصیات کی شمولیت کے ذریعے پولیو کے قطرے پلوائے جائیں گے۔

وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے سیکریٹری ایوب احمد شیخ نے یہاں ای پی آئی کی عمارت میں اس کنٹرول سینٹر کا افتتاح کیا۔

یہ مرکز ایمرجنسی آپریشن سیل (ای او سی) کی ایک ابتدائی شکل ہے، جس کی آزاد نگران بورڈ (آئی ایم بی) کی جانب سے سفارش کی گئی تھی، یہ بورڈ بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی طرف سے کام کرتا ہے۔

یہ ایمرجنسی آپریشن سیل وفاقی اور صوبائی سطح سے حقیقی اعدادوشمار اکھٹا کرے گا اور اس حوالے سے فوری ردّعمل کو یقینی بنائے گا۔

ایوب احمد شیخ نے کہا کہ صوبوں کو اس پولیو مہم کے لیے پولیو ویکسین کی تین کروڑ بیاسی لاکھ ساٹھ ہزار خوراکیں فراہم کردی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا ’’اس مہم کے دوران ہر بچے تک رسائی اور ہر بچے کو ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے وفاقی حکومت صوبوں کو مدد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مکمل طور پر پُرعزم ہے۔‘‘

تاہم اس کنٹرول سینٹر کے ذریعے شام تک اکھٹا ہونے والے اعدادوشمار چونکا دینے والے تھے۔

اس وزارت کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ پشاور میں سیکورٹی کی وجوہات کی بناء پر پولیو مہم کو محض ایک دن تک محدود کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوا تھا کہ پولیو ٹیم پر اس مہم کے دوسرے یا تیسرے دن عام طور پر حملے کیے گئے تھے۔

’’پشاور میں ایک روزہ مہم کے دوران 84 فیصد بچوں (سات لاکھ چون ہزار تین سو تراسی میں سے چھ لاکھ پینتس ہزار تین سو اٹھہتّر) کو پولیو کے قطرے پلائے گئے تھے، جبکہ اٹھائیس ہزار نو سو چونتیس بچے اپنے ایڈریسز پر موجود نہیں تھے۔

انہوں نے کہا ’’لیکن چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ سولہ ہزار سات سو ستاون بچوں کو پولیو کے قطرے اس لیے نہیں پلائے جاسکے کہ ان کے والدین نے یہ ویکسین پلوانے سے انکار کردیا تھا۔‘‘

ڈاکٹر رانا صفدر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ والدین کی جانب سے انکار کرنا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’’پشاور میں 97 یونین کونسلوں میں سے 45کو سیکورٹی کے لحاظ سے انتہائی خطرناک علاقے قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہاں صرف ایک روزہ مہم شروع کی گئی تھی۔ تاہم وہاں مزید دو دنوں کے دوران ایسے بچوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی، جنہیں اب تک پولیو ویکیسن نہیں پلائی جاسکی ہے۔‘‘

بچوں کے حوالے سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار سے اب ان کے قبیلوں، زبانوں اور ان کے مسالک کا پتہ لگا کر ان کا تجزیہ کیا جائے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد علاقے کی بااثر شخصیات کو شامل کرکے بچوں کو ویکسین فراہم کی جائے گی۔ اس طرح اگلے مرحلے میں والدین کی جانب سے انکار کے واقعات میں کمی آئی گی۔

تبصرے (0) بند ہیں