پاکستان کے ہندو، بے وطن لوگ

30 ستمبر 2014
ایک پاکستانی ہندو جوڑا واہگہ کے راستے ہندوستان میں داخل ہورہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
ایک پاکستانی ہندو جوڑا واہگہ کے راستے ہندوستان میں داخل ہورہا ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

’’میں کبھی ہندوستان واپس نہیں جاؤں گا، لیکن جلد یا بدیر یہ جگہ بھی چھوڑ دوں گا۔‘‘

یہ کہنا تھا مہیش کمار کا، جو لگ بھگ چالیس برس عمر کے ہیں، انہوں نے میرے لیے کچھ وقت نکالا، جب وہ ہندو محلّے میں اپنے جنرل اسٹور پر گاہکوں کو نمٹا رہے تھے، ان کے اسٹور پر گاہکوں کا رش لگا ہوا تھا۔

یہ ہندو محلہ جیکب آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے ٹھل میں واقع ہے، اس کا نام سندھی لفظ ’اسٹوپا‘ سے لیا گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں ٹھل ایک تباہ شدہ یورپی بستی کی باقیات ہے۔

یہاں کے رہائشیوں نے مجھے ہندو اور مسلمانوں کے خوشگوار تعلقات کی کہانیاں سنائیں، جنہوں نے 2010ء کے سیلاب کے دوران ایک دوسرے کو بچایا تھا، جب اس علاقے کا ہر ایک گاؤں ڈوب گیا تھا۔

اس وقت وہ قصبے کی حدود کو محفوظ رکھنے کے قابل تھے۔

لیکن آج ان کے لیے اس قصبے کی مذہبی رواداری کی اقدار کو قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔

یہاں اب ہندو برادری کی تعداد تقریباً نصف رہ گئی ہے اور دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔

مذہبی عدم برداشت میں اضافہ، کم عمر ہندو لڑکیوں کا اغوا اور انہیں مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا، تاوان کے لیے ہندوتاجروں کا اغوا اور مندروں کی بے حرمتی نے بہت سے لوگوں کو ہندوستان یا کسی دوسرے ملک نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے۔

ہندو برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سینکڑوں گھرانے یہاں سے چلے گئے ہیں۔

یہ لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں یہاں سے جارہے ہیں۔ وہ خود اپنی اور اپنے خاندان کی تعمیر اپنے تصور کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔

مہیش کمار اور دیگر پاکستانی ہندوؤں کو امید تھی کہ ہندوستان میں ان کی زندگی آسان ہوجائے گی۔وہ پچھلے سال ہندوستان گئے تھے۔

وہ اپنی اہلیہ اور اپنے دو بیٹوں پر مشتمل اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان جانے کے لیے ایک بہانہ گھڑا، اور سرکاری اہلکاروں کو بتایا کہ وہ مذہبی یاترا کے لیے جارہے ہیں۔

انہوں نے ویزا حاصل کیا، اور ٹرین کا سفر کرکے لاہور پہنچے، یہاں سے وہ امرتسر میں داخل ہوئے اور پھر بھوپال پہنچے جہاں ان کے کچھ رشتہ دار مقیم تھے۔

مہیش کمار کا کہنا تھا ’’لیکن نقل مکانی کے ذریعے مسائل حل نہیں ہوسکے، دراصل ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ہندوستان پہنچتے ہی ایک بار پھر پریشانیاں پیدا ہونے شروع ہوگئی ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ہمارے رشتہ دار مہربان تھے اور انہوں نے ہماری ابتداء میں مدد بھی کی۔ لیکن میری سندھ سے آنے والے کچھ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی، جن کی درخواستیں کئی سالوں سے زیرِ التوا پڑی ہوئی تھیں۔ میرے ذہن میں بہت سے سوالات اُبھرنے لگے۔

ان کا کہنا تھا ’’وہ سوالات یہ تھے کہ اگر ہمیں یہاں کی شہریت نہیں ملی تو ہم کیا کریں گے؟ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ یہاں تک کہ میں اس طویل پروسیس کے بارے میں سوچ کر مایوس ہوگیا، میں نے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا اور تین مہینے کے اندر ٹھل واپس آگیا۔ میں نے اپنی دکان واپس خرید لی، اور اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کردیا۔‘‘

اسی طرح کی داستان چاول کے ایک ہندو تاجر نے مجھے سنائی، انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھ سے بات کی۔

وہ پچاس برس کے ایک مضبوط ڈیل ڈول کے مالک تھے، ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اور میرا خاندان 2011ء میں اندور منتقل ہوا تھا، جہاں میرے رشتہ دار طویل عرصے سے رہائش پذیر ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا ’’میں نے ایک دکان میں پیسہ لگایا اور زندگی گزارنے کے کمائی کا بندوبست کرلیا، لیکن ہم مقامی لوگوں کے پاکستان مخالف جذبات سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ میرے بچوں کا اسکولوں میں داخلہ نہیں ہوسکا، اس لیے کہ ان کے پاس ضروری دستاویزات نہیں تھے۔ اگر علاقے میں کوئی مسئلہ ہوتا تو ہم سے پوچھ گچھ کی جاتی، اس لیے کہ ہم پاکستانی تھے۔ ایک مرتبہ میں نے فسادی نوجوانوں کے ایک گروپ کو تنبیہ کی اور یہ مقامی گینگ میرے خلاف ہوگیا۔ اس بات نے مجھے مایوس کردیا اور پھر میں نے واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘

چاول کے یہ تاجر اس سال کی ابتداء میں ٹھل واپس آگئے۔

آل پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سیکریٹری روی دیوانی پاکستانی ہندوؤں کو ’’بے وطن لوگ‘‘ قرار دیتے ہیں، جو ’’ہندوستان میں پاکستانی ہیں، اور پاکستان میں ہندو۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ چند ہندو جو ابتداء میں ہندوستان نقل مکانی کرگئے تھے، اب بڑی تعداد میں واپس لوٹ رہے ہیں۔

روی دیوانی کہتے ہیں کہ ’’زیادہ تر لوگ احمدآباد، رائے پور، اندور، بھوپال اور پونے جیسے شہروں میں گئے، لیکن چند متمول خاندانوں کے علاوہ دوسروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

’’وہ بطور پاکستانی غیر محفوظ رہے، ان کے ساتھ ملازمتوں، اسکول کے داخلوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، اور کئی دہائیوں کی آزمائش کے بعد انہوں نے شہریت حاصل کی۔‘‘

ہندوستانی وزارتِ داخلہ کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے آل پاکستان ہندو پنچایت کا کہنا تھا کہ جنوری 2013ء سے اس سال جون کے درمیان تین ہزار سات سو تریپن پاکستانیوں نے اپنا پاسپورٹ پیش کرکے ہندوستان کے لیے طویل مدتی ویزا حاصل کرلیا،جو سال میں ایک بار پاکستان جانے کا پرمٹ ہے۔ جنوری 2011ء سے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار آٹھ سو چون ہندوؤں کو ہندوستان کی شہریت دی جاچکی ہے۔

ساؤتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان جو اقلیتوں کے مسائل پر کام کرتی ہے، اس این جی او سے تعلق رکھنے والی شہناز شیدی کہتی ہیں کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیاتھا تو غیر مسلم پاکستان کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ تھے، اب یہ تعداد محض چار فیصد رہ گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’زیادہ تر غیر مسلم ہندوستان نقلِ مکانی کرگئے۔ جو یہاں باقی رہ گئے ہیں ان کی زندگی دہشت گردی میں گزر رہی ہے۔ انہیں بہت سے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے، اور یہاں تک کہ ریاست بھی ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سا یا اس سے بھی بدتر سلوک کرتی ہے۔‘‘

مجھے بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی، جب مہیش کمار نے مجھے بتایا کہ وہ ترجیحاً اپنے ملک میں ایک ایسے مقام کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں اس کا خاندان ایک بہتر زندگی گزار سکے۔‘‘

انہوں نے سوچتے ہوئے کہا ’’میں ٹھل چھوڑ دوں گا، اور شاید کراچی یا حیدرآباد چلا جاؤں۔‘‘

مہیش کمار نے کہا ’’یہ شہر تمام قسم کی برادریوں کے لیے کہیں زیادہ کشادہ ہیں۔ کوئی بھی آپ کے مذہب کے بارے میں فکرمند نہیں ہوتا۔ اور اس سے زیادہ کیا اطمینان بخش بات ہوگی کہ آپ کو اس ملک کو نہیں چھوڑنا پڑے گا، جہاں آپ پیدا ہوئے ہوں۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

harji lal Oct 03, 2014 01:40am
pakistan ky hindu be watan naheeen , pakistan he hmara watan hy, jo log dosry mulk jaty een wo panah geer hoty heen, hameen apna watan nahee chhorna chaheey