کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے ایک متقفہ قرارداد کے ذریعے خان آف قلات پر زور دیا ہے کہ وہ وطن واپس آئیں اور صوبے کی صورتحال کو نارمل بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آغا سلیمان داؤد خان نے 2006 میں عمر رسیدہ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد لندن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔

جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی -ف) کے اپوزیشن رکن سردار عبدالرحمان کھیتران کی قرارداد میں کہا گیا کہ آغا سلیمان سے رابطہ کیا جائے تاکہ وہ جلا وطنی ختم کرتے ہوئے مرکزی سیاسی دھارا میں شامل ہوں۔

کھیتران نے افسوس ظاہر کیا کہ اٹھارہ مہینے گزرنے کے باوجود اتحادی حکومت نے نا تو خان آف قلات سے رابطہ کیا اور نہ ہی غیر ملکوں میں موجود دوسرے بلوچ رہنماؤں سے۔

انہوں نے کہا کہ آغا سلیمان سے رابطہ کرنے اور وطن واپسی پر آمادہ کرنے کے لئے ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔'اس سے بلوچستان کی صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملے گی'۔

جے یو آئی -ایف کے رہنما کی جانب سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو خراب قرار دیے جانے پر ایوان میں شور مچ گیا۔

ٹریژری بنچوں کے پانچ ارکان عبدالرحیم زیارت وال، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، سید لیاقت آغا، رحمت بلوچ اور عبید اللہ ببت نے ان ریمارکس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ماضی کی نسبت صورتحال کافی تسلی بخش ہے۔

ان سب کا کہنا تھا کہ قرارداد پیش کرنے والے کو اس کے مندرجات تک محدود رہنا چاہیئے اور یہ کہ سابق حکومت صوبے میں خراب امن و امان کی صورتحال کی ذمہ داری تھی۔

ایوان میں شور شرابا کچھ دیر تک جاری رہا اور اس دوران قائم مقام سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو صورتحال سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آئے۔

اس پر وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مداخلت کرتے ہوئے ٹریژری اور اپوزیشن ارکان سے ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کی درخواست کی۔

عبدالمالک بلوچ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت چاہتی ہے کہ آغا سلیمان اور دوسرے بلوچ رہنما وطن واپس آئیں اور صوبے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ملٹی پارٹی کانفرنس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں نے بھی انہیں جلا وطن سیاست دانوں سے بات چیت کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہ وہ اس حوالے سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت نے اس معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف سے تبادلہ خیال کیا تھا اور وفاقی حکومت کا ردعمل کافی حوصلہ افزاء رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں