اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنسز کو دفن ہونے سے بچانے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) احتساب عدالت کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکا۔

ستمبر کے تیسرے ہفتے میں اسی احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنسز کی بحالی کی ایک پٹیشن کو مسترد کردیا تھا۔

اس فیصلے کو دس دن کے اندر اندر چیلنج کیا جاسکتا تھا، لیکن اس کی آخری تاریخ 29 ستمبر کو گزرگئی ہے۔

اس سال کے دوران یہ دوسرا موقع ہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے اعلٰی سطح کے بدعنوانی کے ریفرنسز میں مزید کارروائی کو مسترد کرنے کے فیصلے کو نیب نے چیلنج نہیں کیا ہے، یہ اقدام بدعنوانی کے ان مقدمات کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔

سابق ڈپٹی پرسیکیوٹر جنرل طارق محمود جہانگیری کہتے ہیں کہ استغاثہ کی جانب سے مخصوص مدت کے دوران ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر نہ کیے جانے سے احتساب عدالت کے اس فیصلے نے حتمی صورت اختیار کرلی ہے۔

ان کے مطابق یہ ریفرنسز اب کبھی کھولے نہیں جاسکیں گے، اب یہ ماضی کا حصہ بن گئے ہیں اور یہ باب بند ہوگیا ہے۔

قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کے تحت اگر نیب بدعنوانی کے ریفرنسز پر کارروائی کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، تو وہ دس دنوں کے اندر احتساب عدالت کے کسی فیصلے کو چیلنج کرسکتا ہے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالتوں اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کرنا روزمرّہ کا معمول ہے۔

جیسے کہ احتساب عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی بڑی تعداد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے سامنے تاحال زیرِ التواء پڑی ہوئی ہیں۔

نیب کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی احتساب عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف دو درجن سے زیادہ اپیلیں لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے زیرِ التوا پڑی ہوئی ہیں۔

اس میں مضاربہ اسکینڈل، اوگرا کرپشن ریفرنسز، سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں شروع کیے گئے توانا پاکستان پروجیکٹ اور کئی دوسرے ریفرنسز میں دیے گئے فیصلوں کے خلاف نیب کی اپیلیں بھی شامل ہیں۔

روالپنڈی کی احتساب عدالت نے 19 ستمبر کو نیب کی جانب سے اگست 2001ء کو دائر کی گئی ایک درخواست کو خارج کردیا تھا، جس کے ذریعے شریف برادران کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنسز کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس سال مئی میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پولو گراؤنڈ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کو بری کردیا تھا، اس فیصلے کو بھی ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔

نیب نے 2000ء کے دوران احتساب عدالت میں یہ پولوگراؤنڈ کرپشن ریفرنسز دائر کیا تھا، جس میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ سی ڈی اے کے دو سابق چیئرمین شفیع شہوانی اور سعید مہدی کو بھی ملؤث کیا گیا تھا۔

سابق چیئرمینوں پر الزام تھا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار کے دوران وزیراعظم ہاؤس میں ایک پولو گراؤنڈ تعمیر کروایا تھا۔

اس مقدمے کو آصف زرادری اور شریف برادران کے دوسرے مقدمات کے ساتھ ساتھ 2007ء میں قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے تحت روک دیا گیا تھا۔

16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ کی جانب سے این آر او کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے بعد ان مقدمات کو بحال کردیا گیا تھا۔

تاہم دو سال کے بعد 2011ء میں لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنسز میں سے حدیبیہ پیپر ملز اور رائے ونڈ اثاثوں کے ریفرنسز پر کارروائی جاری رکھنے سے روک دیا تھا۔

حدیبیہ پیپر ملز ریفرنسز پر نیب کی گیارہ والیوم کی رپورٹ کے مطابق شریف خاندان نے مبینہ طور پر دیگر افراد کے ناموں سے کھولے گئے اکاؤنٹس میں ناجائز طور پر حاصل کی گئی رقم کو جمع کرایا اور اس کو ’شریف کمپنیوں‘ کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔

رائے ونڈ اثاثہ جات کے ریفرنسز میں شریف برادران کے خلاف لگائے گئے الزامات کے مطابق انہوں نے زمین کا ایک وسیع حصہ خریدا اور اس پر بڑی تعداد میں شاندار گھروں اور محلات تعمیر کروائے، جس سے معلوم ذرائع آمدنی سے کہیں زیادہ ان کی دولت ظاہر ہوتی ہے۔

اس کے بعد یہ مقدمہ بھی کسی فیصلے کے بغیر سست روی کا شکار ہوگیا۔

لیکن 2011ء میں ایک ماہ کے بعد شریف برادران انہی دونوں مقدمات پر ایک اور پٹیشن کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ چلے گئے۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ریفرنسز منسوخ کردیے جائیں، عدالت نے ان کی درخواست قبول کرلی، لیکن اس وقت یہ ریفرینسز احتساب عدالت کے سامنے زیرِ التواء تھے، اس لیے لاہور ہائی کورٹ نے یہ معاملہ احتساب عدالت کے حوالے کردیا۔

اور پھر چار مہینوں کے بعد ستمبر کے تیسرے ہفتے میں اس عدالت نے شریف برادران کے خلاف کارروائی کو منسوخ کردیا۔

نیب کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتا تھا، اور احتساب عدالت کے 19 ستمبر کے فیصلے پر اپیل کی جاسکتی تھی۔ تاہم اس نے ایسا نہیں کیا۔

قومی احتساب بیورو کی اس کارروائی سے واقف لوگوں کے مطابق استغاثہ جو اس خاص ریفرنس کی نگرانی کررہا تھا، بعد میں اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایک تحریری رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کرے کہ وہ اس مقدمے کو ثابت کرنے میں کیوں ناکام رہا۔ اس رپورٹ میں استغاثہ یہ سفارش بھی کرتا ہے کہ آیا احتساب عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنا چاہیے یا نہیں۔

سفارشات سمیت یہ رپورٹ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل (ڈی پی جی) کو بھیجی جاتی ہے، جو اس کو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اور اس کے بعد پراسیکیوٹر جنرل کو بھیجتا ہے۔

اس طرح کے معاملات میں پراسکیوٹر جنرل یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا اپیل دائر کی جائے یا نہیں۔

تاہم ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ شریف برادران اور آصف زرداری کے مقدمات میں معاملہ الٹا رہا۔ دوسرے الفاظ میں پراسیکیوٹر نے سفارش نہیں کی تھی کہ اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جائے گا، بلکہ اعلٰی حکام نے حکم دیا تھا کہ ان مقدمات کو خارج کردیا جائے۔

نیب کے ترجمان حافظ محمد عرفان سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت نے بدعنوانی کے ریفرنسز کو بحال کرنے کے لیے نیب کی درخواست کو مسترد کردیا تھا، جب لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ یہ ریفرنسز خارج کردیے جائیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی احتساب بیورو نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بعد میں اس کی وضاحت کریں گے کہ یہ اپیل کیوں نہیں دائر کی گئی۔ تاہم اس رپورٹ کی تیاری تک انہوں نے جواب نہیں دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں