کراچی : اپنے انتہا پسند مذہبی خیالات کی وجہ سے پاک بحریہ سے برطرف ہونے والے اویس جاکھرانی نے کئی ماہ بعد ایک جنگی جہاز پر قبضے کے ایک مشن کی قیادت کی تاکہ اس کی گنوں سے کھلے سمندر میں امریکی نیوی کے ایک جہاز کو نشانہ بنایا جاسکے۔

برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ستمبر کے شروع میں کراچی کی ایک نیول بیس پر علی الصبح ہونے والے حملے کو ناکام بنا دیا گیا تاہم ایسا جاکھرانی، دو افسران اور ایک نامعلوم چوتھے حملہ آور کی جانب سے ایک چھوٹی کشتی میں ایک گشتی بوٹ کے پاس سے گزر کر پی این ایس ذوالفقار نامی جنگی جہاز کے ارگرد شدید لڑائی سے پہلے ممکن نہیں ہوسکا۔

پولیس رپورٹس کے مطابق ذوالفقار کو ہائی جیک کرنے کی کوشش میں جاکھرانی اور اس کے دو ساتھی جو کہ حاضر سروس سب لیفٹننٹ تھے، سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔

حکام کے اندر اس حوالے آراء مختلف ہے کہ جاکھرانی کو پاک بحریہ کے اندر کس حد تک حمایت حاصل تھی، وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ جاکھرانی اور اس کے ساتھی طویل عرصے سے اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں تھے۔

تاہم یہ حملہ جس کی ذمہ داریٰ القاعدہ کی نو تشکیل شدہ جنوبی ایشیائی شاخ نے قبول کی، فوج کے اندر عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ مسلح افواج کے لیے بہت حساس معاملہ ہے جسے 2001 کے بعد سے اب تک اربوں ڈالرز کی امداد القاعدہ کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننے پر ملی ہے۔

القاعدہ کے ابتدائی بیان کے مطابق پی این ایس ذوالفقار کو امریکی بحری جہاز پر حملے کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوتا۔

اس گروپ کی جانب سے جاری ایک اور بیان میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس سپلائی کو ہدف بنانے کی بات کی گئی تھی جسے گہرے سمندر میں جنگی جہازوں میں ایندھن بھرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی بحریہ کو بھی ہدف بنایا جانا تھا۔

پاک بحریہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے اور جب فوج سے اس واقعے پر رائٹرز نے تفصیلی سوالات کے ساتھ رابطہ کیا گیا تو یہ جواب ملا"رائٹرز کی اسٹوری حقائق پر مبنی نہیں، تمام حقائق اس وقت سامنے آجائیں گے جب تحقیقات مکمل ہوجائے گی"۔

پاک فوج کے بیشتر افسران نے اس بات کی تردید کی کہ عسکریت پسندی کا سرایت کرنا بڑا مسئلہ ہے۔

تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنت کو بتایا تھا کہ حملہ آور سخت سیکیورٹی کے حصار کو اس لیے عبور کرسکے کیونکہ انہیں اندر سے مدد مل رہی تھی۔

ایک نیوی عہدیدار نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ پی این ایس ذوالفقار پر سوار چار اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ نیوی اہلکاروں کو حملہ آوروں کے فون ریکارڈز کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ کراچی کے تین حاضر سروس لیفٹننٹ کمانڈرز کو بھی کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا ہے جس کی وجہ ان کی جانب سے حملے کے دو روز بعد مبینہ طور پر افغانستان فرار کی کوشش تھی۔

عہدیدار کے مطابق کراچی، پشاور اور شمال مغربی پاکستان سے بھی لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ماسٹر مائنڈ

اس حملے کا ماسٹرمائنڈ پچیس یا چھبیس سال کا اویس جاکھرانی تھا جس کے والد کراچی میں ایک سنیئر پولیس افسر ہیں۔

ایک سنیئر نیول افسر کے مطابق اسے کئی ماہ پہلے تربیت کے عرصے کے دوران ہی برطرف کردیا گیا تھا"وہ اکثر یہ سوالات کرتا تھا کہ تربیتی سیشن کے دوران نماز کے لیے وقفہ کیوں نہ رکھا جاتا ہے، وہ اس طرح کے سوالات سنیئرز سے اکثر کرتا تھا۔

دو عہدیداران کے مطابق رواں برس کے اوائل میں جاکھرانی نے افغانستان کا سفر کرکے عسکریت پسند لیڈرز سے ملاقاتیں کیں اور جنگی تربیت حاصل کی، جبکہ اس عرصے کے بارے میں اس نے اپنے باسز کو بتایا کہ وہ اسے امتحانات کی تیاری کے لیے تعطیلات کی ضرورت ہے۔

مگر جاکھرانی امتحانات میں ناکام ہوگیا اور اس کے ساتھی عسکریت پسندانہ خیالات کی بناء پر ہوشیار ہوگئے۔

ایک عہدیدار کے مطابق"ہم نے اس کے سامان سے ایسی کتابیں اور مواد بھی نکلا جس کی کسی کو رکھنے کی اجازت نہیں، اس کے ساتھیوں نے اس کے خیالات کی رپورٹ کی اور اس کی سرگرمیوں پر باریک بینی سے نظر رکھی جارہی تھی جس کے بعد اسے برطرف کردیا گیا"۔

تاہم جب وہ بحریہ سے الگ ہوگیا تو اس کی سرگرمیوں اور منصوبوں کے بارے میں معلومات واضح نہیں۔ دونوں عہدیداران کے مطابق حملہ متوقع تھا، تاہم جاکھرانی جسے کراچی بیس کی اندرونی معلومات حاصل تھی، پر لگتا ہے کہ زیادہ نظر نہیں رکھی گئی۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹیڈیز کے سربراہ امیتاز گل کا کہنا ہے کہ سنیئر جنرلز انتہاپسندی کی بناءپر برطرف کئے جانے والے فوجی عہدیداران کی نگرانی کے نظام کی کمزوریوں سے آگاہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے"ان کے پاس ایسے عہدیداران کی سرگرمیوں کا ٹریکنگ سسٹم نہیں جنھیں برطرف کردیا گیا ہو یا سروس چھوڑنے کا کہا گیا ہو(انتہا پسندانہ خیالات کی بناءپر)، اس چیز نے خاص طور پر اگر وہ انتہاپسند گروپس میں شامل ہوجائیں تو ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بہت مشکل بنا دیا ہے"۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنینشل میری ٹائم سیکیورٹی کے نائب صدر کرس راﺅلی کے مطابق یہ حملہ کبھی بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔

بیس پر حملہ

کراچی میں یہ حملہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی جانب سے برصغیر پاک و ہند کے لیے اپنی تنظیم کی نئی شاخ کے اعلان کے بعد عمل میں آیا، یہ خطہ جو ہندوستان سے بنگلہ دیش تک پھیلا ہوا ہے میں چار سو ملین مسلمان رہائش پذیر ہیں۔

اس گروپ نے اپنے جاری بیان میں کہا"ہمارا ہدف امریکی اور ہندوستانی بحری افواج تھیں اس بیان میں امریکی بحریہ کے اتحادیوں کو بھی دھمکی دی گئی تھی جو اپنے بحری راستوں کے تحفظ اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے خواہش مند ہیں۔

گروپ کا دعویٰ تھا کہ اس کے جنگجوﺅں نے پی این ایس ذوالفقار اور پی این ایس اصلت پر حملہ کیا تھا اور پاک بحریہ کے متعدد اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا، تاہم رائٹرز نے ایک پولیس رپورٹ کو دیکھا ہے جس میں ذوالفقار پر ایک اہلکار کی ہلاکت کا ذکر ہے جبکہ دوسرے جہاز کا ذکر نہیں۔

عسکریت پسند اس سے پہلے بھی پاکستانی سیکیورٹی تنصبیات کو حملوں کا نشانہ بناچکے ہیں مگر کراچی بیس کے منصوبے کا مقصد پاکستان اور امریکا کے اتحاد کے دل کو نشانہ بنانا لگتا ہے۔

ایک نیول افسر کے مطابق کم از کم چار حملہ آور نیوی کی وردیوں میں ملبوس گشتی پوسٹ کے پاس سے گزر کر اس وقت پی این ایس ذوالفقار پہنچے جب صبح کی شفٹ تبدیل ہورہی تھی، ایک اہلکار نے انہیں روکا جس پر فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا جس کا اختتام اس وقت ہوا جب جہاز کے گنر نے انہیں اینٹی شپ گنز سے نشانہ بنایا۔

بیس کے اندر کام کرنے والے نیوی کے ایک عہدیدار کے مطابق"اسپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز قریبی بیس سے وہاں پہنچے اور کم از کم ایک حملہ آور کو ہلاک کیا جس نے ڈیک کے نیچے پوزیشن لی ہوئی تھی۔

اس نے مزید بتایا"اسی اثناءمیں قریبی یونٹ میں تعینات نیول کمانڈوز بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے جیمرز لگائے اور جہاز سے اس وقت ٹرانسمٹ ہونے والا ڈیٹا کا جائزہ لیا"۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ وہ دھماکے کی آواز سن کر ڈاکیارڈ پہنچا تو اسے فوج نے بتایا کہ یہ یوم دفاع کی تقریبات کا حصہ ہے۔

پاک بحریہ کے حکام نے بتایا کہ دھماکے کی وجہ واضح نہیں تاہم یہ دستی بم یا خودکش جیکٹ پھٹنے کی وجہ سے ہوا تھا۔

عینی شاہدین کے بیانات اور سیکیورٹی حکام کے بیانات میں کافی تضاد موجود ہے، جن کا کہنا ہے کہ جاکھرانی اور پانچ حملہ آوروں کو جہاز کے ایک گنر نے ہلاک کیا تھا۔

ایک پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار امریکی جہاز پر حملے کے خطرے پر کہتے ہیں کہ اسے بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہئے "حملہ آوروں کو کوئی کامیابی نہیں ملی اور لگتا ہے کہ اس حوالے سے بہت زیادہ پروپگینڈہ کی کوشش کی جارہی ہے، کسی بحری جہاز کو ہائی جیک کرنا کوئی مذاق نہیں، یہ کسی ہولی وڈ فلم کا حصہ نہیں"۔

تبصرے (1) بند ہیں

Samina Rizvi Oct 01, 2014 09:52pm
Militant wing in NAVY is long time suspected.It should have been noticed the day when first Shia navy officer was targeted and then the cycle of Shia Navy officers began.This is the matter of great concern as our forces are our pride and trust.Few years back,an Army officer Major Ali was also found guilty of having links with Talibans,hence putting our security at stake.Such matters shall not be taken lightly.Strict measures need to be taken to regain the trust of our Defensive forces .