اسلام آباد: پاکستان کے الیکشن کمیشن نے مقررہ وقت میں اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانے والے اراکین اسمبلی کی رکنیت 60 دنوں تک معطل کرنے کی تجویز دی ہے۔

یہ تجویز کمیشن کے تیار کردہ الیکشن قوانین کے ڈرافٹ کا ایک حصہ ہے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس تجویز کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ شکل میں اس مقصد کے لئے دو 'آخری تاریخیں' رکھی گئی ہیں۔

مجوزہ قانون کے مطابق پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے اور اہل خانہ کے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کرائیں ۔

قانون کا کہنا ہے کہ ہر سال پندرہ اکتوبرتک یہ معلومات جمع نہ کرانے والوں کے نام عام کیے جائیں۔

مجوزہ قانون کے تحت کمیشن سولہ اکتوبر کو ایک حکم کے ذریعے دو مہینوں تک ایسے ارکان اسمبلی کی رکنیت معطل کرنے کا اختیار چاہتا ہے۔

ایسے ارکان کی معطلی تفصیلات جمع کرانے تک برقرار رہے گی۔

ڈرافٹ کئے جانے والے اس قانون کے تحت کمیشن کسی بھی طریقے سے ہر قانون ساز کی فراہم کردہ تفصیلات کی صداقت جانچ سکے گا۔

کمیشن جانچ پڑتال کے لئے وفاق یا صوبوں کے کسی بھی ادارے، محکمہ یا اتھارٹی کی معاونت بھی حاصل کر سکے گا۔

لاپتہ اثاثوں کی تفصیلات

دوسری جانب، اثاثوں کی تفصیلات جمع کرنے کی آخری تاریخ گزر جانے کے باوجود کم از کم چار وفاقی وزراء، ایک وزیر مملکت اور کچھ صوبائی وزراء سمیت تقریباً چار سو قانون سازوں نے تفصیلات جمع نہیں کرائیں۔

ان شخصیات میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی، وزیر سیفرون لیفٹننٹ جنرل (ر) جنرل عبدالقادر بلوچ، وزیر تجارت خرم دستگیر، وزیر برائے اوور سیز پاکستانیز صدر الدین شاہ اور وزیر مملکت برائے پوسٹل سروسز مولانا عبدالغفور حیدری شامل ہیں۔

دوسرے قابل ذکر نادہندگان میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی پرویز خٹک، سینیٹر تاج حیدر، اسرار اللہ زہری، فریال تالپور، مخدوم امین فہیم، شفقت محمود، عارف علوی، اسد عمر، سردار اویس لغاری، دانیال عزیز اور طارق فضل چوہدری شامل ہیں۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کمیشن کی فراہم کردہ سہولت کا فاہدہ اٹھاتے ہوئے منگل کو دفتری اوقات کے بعد اپنی تفصیلات جمع کرا دی تھیں۔

خیال رہے کہ کمیشن آخری دن تیس ستمبر کو رات بارہ بجے تک دستاویزات وصول کرتا رہا۔

ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور پی پی پی کے میاں رضا ربانی سمیت دوسروں نے بدھ کو اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا دیں۔

مجموعی طور پر تقریباً 1140 ارکان اسمبلی میں سے 776 نے پہلی اکتوبر تک تفصیلات جمع کرائیں۔

ان میں 88 سینیٹر، 270 ارکان قومی اسمبلی، 197 پنجاب، 114 سندھ، 71 کے پی اور 36 بلوچستان اسمبلی کے ارکان ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں