گندگی کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء بیمار پڑ رہے ہیں

02 اکتوبر 2014
پی اے ٹی کے دھرنے میں تقریباً 75 فیصد شرکاء ڈائریا، ملیریا، جلد، گلے اور سینے کے انفیکشن کا شکار ہورہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
پی اے ٹی کے دھرنے میں تقریباً 75 فیصد شرکاء ڈائریا، ملیریا، جلد، گلے اور سینے کے انفیکشن کا شکار ہورہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں پیٹھے دلشاد احمد تقریباً ایک ہفتے پہلے ڈائریا کا شکار ہوگئے تھے۔

چالیس برس کے دلشاد جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال سے تین ہفتہ پہلے اس دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے آئے تھے۔

دلشاد نے بدھ کے روز ڈان کو بتایا کہ ’’میں پی اے ٹی کے دھرنے میں شریک اپنے چھوٹے بھائی کی جگہ لینے کے لیے اسلام آباد آیا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کا بھائی مقامی سرکاری اسکول میں کام کررہا تھا، اور اس کے لیے اسکول انتظامیہ کے دباؤ کی وجہ سے دھرنے میں اپنی شرکت کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔

دلشاد نے بتایا ’’میں دھرنے کی انتظامیہ کی جانب سے قائم کی گئی ڈسپنسری میں گیا تھا، جہاں ایک ڈاکٹر نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اچھی طرح پکے ہوئے کھانے کھاؤں اور مکمل آرام کروں۔ لیکن یہاں دھرنے میں میرے لیے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا مشکل ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ دھرنے کے شرکاء کو فراہم کیے جانے والے کھانے کا معیار ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتا جارہا ہے۔

دھرنے کے شرکاء میں سے ایک عدنان مرزا بھی ہیں۔ بیس برس کے عدنان ضلع گجرات میں لالہ موسٰی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنے پیر میں جلدی انفیکشن کا شکار ہوگئے ہیں۔

’’میں توقع کررہا تھا کہ یہ دھرنا ایک ہفتے تک جاری رہے گا، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے ساتھ صرف دو جوڑے کپڑے لایا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ شاہراہِ دستور پر صفائی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء کے لیے شب و روز قیام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

سلمٰی خواجہ لاہور کی رہائشی ہیں۔ چونتیس برس کی سلمٰی کا کہنا ہے کہ وہ چار دن پہلے ملیریا میں مبتلا ہوگئی تھیں۔

انہوں نے بتایا ’’اگرچہ میں خود کو مچھروں سے بچانے کے لیے مچھر دانی کا استعمال کررہی ہوں، تاہم دھرنے میں قیام کی وجہ سے میرا صحتیاب ہونا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

سلمٰی نے مزید بتایا ’’لیکن میرے شوہر پی اے ٹی کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہدایت کی پیروی میں دھرنے میں اپنا قیام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

جہلم سے آئے ہوئے پی اے ٹی کے ایک حمایتی جمیل گجر نے ڈان کو بتایا کہ دھرنے کی انتظامیہ کو پسند نہیں کہ دھرنے کے شرکاء دارالحکومت کے ہسپتال جا کر اپنا علاج کروائیں۔

’’جب بھی دھرنے کے شرکاء سرکاری ہسپتالوں میں اپنے علاج معالجے کے لیے جانا چاہا، تو پی اے ٹی کے نمائندوں نے انہیں خبردار کیا کہ پولیس ان کو گرفتار کرسکتی ہے۔‘‘

لیکن جمیل گجر نے کہا کہ وہ پولی کلینک ہسپتال گئے تھے، اور انہیں پولیس کبھی تنگ نہیں کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ کھانے کا معیار بھی اچھا نہیں ہے، اگرچہ پی اے ٹی کے قیادت نے اس کے لیے پوری ادائیگی کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’پی اے ٹی کی قیادت ایک وقت کے کھانے پر تین لاکھ روپےخرچ کررہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر نور کامل، جو اس دھرنے میں تقریباً تین ہفتوں سے اپنی فرائض ادا کررہے ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ صحت کے لیے خطرناک ماحول اور دھرنے کی طوالت کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

’’پی اے ٹی کے دھرنے میں تقریباً 75 فیصد شرکاء ڈائریا، ملیریا، جلد، گلے اور سینے کے انفیکشن کا شکار ہورہے ہیں۔‘‘

جب پی اے ٹی کے ترجمان عمر ریاض عباسی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی کی قیادت شرکاء کو وقت پر کھانا فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن دھرنے کے شرکاء کو گندگی میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی اے ٹی کی قیادت عیدالاضحٰی سے قبل شرکاء کو گھر جانے کی اجازت دینے پر غور کررہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں