شورش کی ٹریجڈی

23 اکتوبر 2014
بزرگ بلوچ نیشنلسٹ رہنما اکبر بگٹی 2006 میں ایک فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے — فائل فوٹو
بزرگ بلوچ نیشنلسٹ رہنما اکبر بگٹی 2006 میں ایک فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے — فائل فوٹو

یہ کہانی چڑیوں کی نگہداشت کرنے والی ایک بچی سے شروع ہوتی ہے۔ ان کا گھر بلند بالا پہاڑوں کے دل میں واقع تھا۔ آپ جب اونچائی سے کوئٹہ شہر پر نظر ڈالیں گے، تو آپ کو لگے گا کہ گویا قدرت نے پہاڑوں کو چار اطراف ملا کر ایک ہتھیلی بنا رکھی ہے۔ اس ہتھیلی کے قلب میں مضبوط نسلی و خاندانی رشتوں پر عقیدہ رکھنے والا بے ہنگم شہر آباد ہے۔

شہر میں موسموں کا مزاج سخت ہے۔ اکثر ہہاں موسمی سختی درختوں کو جڑوں سے ایسے اکھاڑ پھینکتی ہے، جیسے قدآور شخصیات کا یک لخت گرجانا۔ جب سکون کا لمحہ آتا ہے تو آپ کو خیال نہیں گزرتا کہ دنیا میں کتنی اُتھل پُتھل ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے جہاں آپ کھڑے ہیں، وہاں ایک تناور درخت اپنا وجود رکھتا تھا۔ جس کے سائے میں کتنے لوگ بیٹھا کرتے تھے، اور اس کی شاخوں پر کتنے پرندوں کے گھونسلے ایستادہ تھے۔

ایسے وقت میں جب درخت گرتے، تو چڑیوں کا کوئی سائبان نہیں ہوتا۔ وہ زخموں سے چور، اڑنے سے محروم ، گھروں میں جاگرتیں۔ دھند میں لپٹے، ان لمحوں میں، ایک بچی ان کی نگہبان بن جاتی۔

بچی جب بڑی ہوئی تو اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ اثر انگیز بن گئی، تکلیف کی بڑی بڑی لہریں برداشت کرجانے والی پختہ مسکراہٹ، جو شکست کے کسی بھی ذائقے سے پیشگی آگاہی رکھتی ہو، ایک نرم خو روح۔ وہ تکلیف سہتی، ہنستی مسکراتی جوان ہوئی۔ بیشتر بلوچ جوان نسل کی طرح 70ء کی دہائی میں بچپن گزارتے ہوئے اس کی یادداشتوں میں بلوچ نیشنلزم کے گزشتہ ابھار کا پورا عرصہ کبھی کبھی کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح چلنے لگتا ہے۔

جن ذہنوں نے 70ء کی دہائی کو ایک بچے کی آنکھوں سے دیکھا، ان میں عسکریت پسند بلوچ نیشنلزم کا ایک نام ڈاکٹر اللہ نذر بھی شامل ہے۔ وہ بلوچستان کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی کی اس اقلیت سے تعلق رکھتا تھا جس کی اپنی سیاسی لائن تھی۔ وہ ٹوٹ کر الگ ہوا۔ بظاہر وہ الگ ہوجانے والا ایک بے ضرر سا حصہ تھا۔ ایک فرد یا شاید کچھ دوستوں کا گروہ، جس کو سیاسی کمک اس غصے سے ملی جو بلوچستان میں کہیں بھی کسی بھی وقت دکھائی دیتا ہے۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ بے ضرر نہیں رہا بلکہ تبدیل ہوکر، وزن رکھنے والا کردار بن گیا۔

نیشنلزم، قومی تحریکیں، اکثر مفلسانہ ٹریجڈی پیش کرتی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچر سے فارغ ہونے کے بعد ایک ادیب سے ملاقات ہوتی ہے جو بلوچ دنیا کا نقشہ کسی الگ دنیا کے طور پر بیان کرتا ہے۔

ہمارے ارد گرد، آپ کی نہیں، ہماری جو دنیا واقع ہے وہ کسی اور دنیا سے الگ ہے۔ آپ ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔ مسکراتے وقت ہمارے لب جنبش کرتے اور چہرے کے تاثر بدل جاتے ہیں کیونکہ ہم آپ کی طرح مسکراتے ہیں، ہمارے مزاج میں خوشی و غم کی کیفیات بھی شامل ہیں۔ ہمارے دن بھی روشنی سے معمور ہوتے ہیں اور راتیں تاریک۔ شاید یہ آپ سوچتے ہوں، ہمارے ساتھ ایسا نہیں، ہمارے معمولات الگ ہیں۔ ہم تاریک دنیا کا حصہ ہیں۔ ہم کسی کی پھیلائی تاریکی کا وہ شکار ہیں جو سیاہ رات کو سمجھتے ہیں۔

بلوچ نیشنلزم پراسرار تلخ آب نہیں۔ ایک ایسی پیچ دار کہانی ہے جسے تاحال لکھا نہیں گیا۔

ہر کہیں؛ کسی بھی مقام پر، سیاست کی، کئی لہریں چل رہی ہوتی ہیں ان میں ایک لہر ایسی ہوتی ہے جو دوسری لہروں پر حاوی ہوتی ہے اور اس کی برقی رو ہر خیال میں دوڑتی چلی جاتی ہے۔ گفتگو کسی بھی موضوع پر ہو، گھوم پھر کر اس لہر کے اردگرد گھومنی لگتی ہے۔ آپ اس سے انکار کریں، لیکن جلد ہی آپ محسوس کریں گے کہ انکار ممکن نہیں، آپ کو گتھی سلجھانا ہوگی۔ بلوچ معاشرے میں یہ لہر نیشنلزم کی ہے۔

"حکومت کی کئی جہتی حکمت عملی بلوچ سیاست کی نسبت جاندار ثابت ہوئی۔ عسکریت پسندی کا بتدریج مرکزی اہمیت رکھنے والے علاقوں میں خاتمہ کردیا گیا یا اسے غیر موثر بنادیا گیا۔ مری، بگٹی علاقے اب وہ نہیں رہے جیسے پہلے تھے۔ وہاں حالات پر قابو پالیا گیا۔ معاملات کو اگرچہ پہلے کی نسبت نہیں مگر عام ڈگر پر ضرور لایا گیا۔ مکران کے چند علاقے، دیہی علاقے، قصبوں کے اطراف کے علاقے، شہری مراکز نہیں، شورش زدہ ضرور ہیں لیکن وہاں بھی کنٹرول و طاقت کی صورتحال میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آرہا ہے"۔ کوئٹہ شہر کو اونچائی سے دیکھنے کے بعد جب ہم اندرون شہر لوٹ رہے تھے، ایک سینئر بلوچ بیوروکریٹ حالات کا جائزہ پیش کررہا تھا۔

بلوچ کُردوں کی نسبت وقت بے وقت ناراضگی کا تاثر دینے والے لوگ نہیں۔ بے پناہ قناعت پسند مزاج کے مالک ہیں۔ دونوں کے درمیان نسلی و سیاسی ،استثنٰی کی صورت میں قبائلی رشتے رہے ہیں۔ بلوچوں کی ایک زبان براہوی کو کُرد گالی بھی کہا جاتا ہے یعنی کُردوں کی بولی۔ بلوچ سیاست دیگر قومی محاذوں کی طرح کُرد تحریکوں کے فکری سرچشموں سے بھی حوصلہ پاتی رہی ہے۔

کُردوں میں سیاسی تنظیموں کی ثقافت مضبوط جڑیں رکھتی ہے۔ کومولہ، حزب دموکرات، پیش مرگان، پی کے کے اور بہت ساری تنظیمیں ان کی سیاسی ثقافت کا حصہ ہیں۔ طبقات اور قبائل تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان میں تعمیراتی شعبے کے وہ مزدور بھی شامل ہیں جو ایک دسترخوان پر روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور نظریاتی بحثیں کرتے رہتے ہیں۔ بلوچ نیشنلزم اس قسم کے رشتے بنانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ یہاں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال نے بھرپور غصے کو جنم دیا جس سے فطری سیاسی رشتے بننے لگے۔

بلوچ مضبوط نسلی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں جہاں علاقائی تنازعات نمٹانے میں مسلح کردار فیصلہ کُن رہا ہے۔ وہاں سے سفر کرتی یہ عسکریت پسندی بلوچ نیشنلزم میں ایک دیرینہ روایت کے طور پر شامل رہی اور نئے رشتے بنتے و ٹوٹتے رہے۔ ان نئے رشتوں کی نئی مثالیں جھالاوان، کیچ، اور مکران میں ملتی ہیں، جہاں طاقت کے علاقائی پُرانے مہرے پہلے جیسے مضبوط نہیں رہے۔ یہ البتہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ جو قوم پرستانہ اظہار نے برآمد کیا۔ تصویر کا دوسرا رُخ یکسر مختلف ہے۔ جنگ صرف جنگ ثابت ہوئی۔

مسلح تصادم بلوچ سیاست یا دنیا کے بیشتر پسماندہ ملکوں میں نئی بات نہیں۔ اس کے کردار اور مقامات وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ عموماً امن کے دور کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں۔ جنگیں سیاسی رشتوں کی حیثیت بدلنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ جہاں، جب جنگ محض جنگ ہی ثابت ہو، وہ تاوان بار نکلتی ہیں، یہی بلوچستان کی شورش کی کہانی میں ہوا۔ مسلح نیشنلزم حالات کو اس کے پیچیدہ فریم ورک میں سمجھ پانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کی نظریں جہاں تک کام کرتی تھیں، وہاں اسے ایک پُرانی تصویر نظر آتی تھی۔ گویا مارکیٹ کی ہر دکان کے بورڈ پر ایک ہی نام لکھا ہو؛ اس بورڈ کو زمین بوس کرنے سے طاقت کی کلید ہاتھ آجائے گی۔

جب مسلح نیشنلزم نے سیاست کی مارکیٹ میں قدم رکھا اور قدیم بورڈ اتار دیے جانے لگے، تب نئے چیلنجز سامنے آئے جن کا مسلح نیشنلزم کے فلسفے میں کوئی حل موجود نہیں تھا، لہٰذا وہ کُل وقتی جنگ کا حصہ بن گئے تھے۔

کُل وقتی جنگ بلوچ نیشنلزم کی سیاسی ذہانت کے لیے بھی آزمائش ثابت ہوئی۔ بلوچ سیاست کے مرکزی دھارے کے ذرائع ، جلسے جلوس، میٹنگز، سرکلز، ان کے لیے محدود ہوگئے یا کہیں کہیں ہاتھوں سے نکل گئے۔ رائے عامہ ہموار کرنے کا میدان انہوں نے کھودیا۔ اس کے عوض، رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے باقی رہ گئی تھیں مسلح کارروائیاں۔ بلوچ عسکریت پسند نیشنلسٹ سوچ کے مطابق، ان کو بہرحال برقرار رکھنا تھا لہٰذا مسلح قوتوں کو بنیاد فراہم کرنے والی سیاسی قوتیں تنظیمیں ان پر قربان کردی گئیں۔

ایک سال قبل ، 2013 ء میں ، آسکر انعام کے لیے ایک فلسطینی فلم "عمر" نامزد کی گئی تھی۔ فلم فلسطین اسرائیل تنازع کے گرد گھومتی ہے۔ فلم کے ایک سین میں اسرائیلی ایجنٹ مرکزی کردار عمر کو گن دیتے ہوئے تنبیہ کرتا ہے، "گن کا مزاج زنانہ ہوتا ہے۔ آپ کو اس کے ساتھ شائستگی سے پیش آنا ہے، پھر یہ آپ کے ساتھ شائستہ رویہ اپنائے گی"۔ گویا بندوق کچھ نہیں، سب کچھ آپ ہیں؛ اس کا استعمال کرنے والا انسان۔ جب بندوق کو اس کی حیثیت سے بڑھ کر زیادہ کردار دیا جائے تو وہ خودسر ہوجاتی ہے۔ سب کچھ نگل لیتی ہے۔

رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سیاسی ذرائع کے بجائے مسلح کارروائیاں، بھوک کی طرح اپنا اثر دکھانے لگیں۔ معاشرے مختلف سیاسی قوتوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ بلوچ سیاسی قوتوں کی حیثیت میں تبدیلی لانے اور اپنی قوت بڑھانے کے لیے جب جنگ پر سیاسی دباؤ بڑھنے لگا، اس کے تقاضوں میں روز اضافہ ہوتا گیا۔ اس نے خالی پیٹ کی طرح اپنی تنظیموں کی فکری نفری کو کھانا شروع کردیا۔ جن تنظیموں کا رجحان مسلح نیشنلزم کی جانب تھا، وہ سیاسی دھارے سے کٹ کر رہ گئیں۔ ان کے لیے تصادم کو ایندھن فراہم کرنا تھا، جو بلوچ نیشنلزم کی مفلس ٹریجڈی بن گئی۔ منظر عام پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے جو کیمپ قائم کئے گئے تھے وہ سیاسی ادارے کی شکل اختیار کرنے لگے۔ سیمینار، کانفرنس، ریلی ان کے حصے میں آئے۔ انسانی حقوق کی پامالی بلوچستان کا اہم مسئلہ بن گیا۔

کُل وقتی دو طرفہ تصادم میں عوام ہاتھیوں کی جنگ میں گھاس کی طرح کچلے گئے۔ کیچ میں ایسے علاقوں، خصوصاً دیہی علاقوں کی آبادی کی تعداد کم نہیں جو خانہ بدریوں کا شکار ہوئی۔ تربت شہر میں کرائے کے مکانات تلاش کرپانا خوش قسمتی سمجھی جانے لگی ہے۔ جن خاندانوں کے پاس کچھ سرمایہ ہے، وہ بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے کوئٹہ یا کراچی منتقل ہوئے۔ جن کی معاشی حالت نے اجازت نہیں دی، وہ تربت جیسے علاقوں میں ہی ٹھہرگئے۔

"ہمارے یہاں مکانات ، فلیٹس، زمین کے اکثر خریدار بلوچ ہوتے ہیں، زیادہ تر کا تعلق کیچ کے علاقے سے ہے، حالات کی وجہ سے زمینوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے"۔ کوئٹہ شہر کی ایک نئی ہاؤسنگ اسکیم اے ون سٹی میں مکانات، فلیٹس اور زمینوں کا کاروبار کرنے والے ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ نے بتایا۔ ماضی کے تصادم میں کیچ، جھالاوان و دیگر قبائلی ایجنسیاں محفوظ علاقے تھے۔ حالات کی ناگہاں سیاسی تبدیلی نے وہاں، ناقابل زندگی ، ڈرامائی تبدیلی پیدا کی۔

تبصرے (0) بند ہیں