‫پاکستان کی مزید سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

‫پاکستان کی مزید سحر طاری کر دینے والی جھیلیں

سعدیہ امین اور فیصل ظفر


گرد و پیش دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور میڈیا میں منفی رپورٹنگ کے باعث پاکستان کا خوبصورت چہرہ کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے اس حوالے سے ایک سیریز کا آغاز ہم سربہ فلک برف پوش چوٹیوں سے کر چکے ہیں جبکہ اس کی دوسری کڑی میں ہمارے ملک کی جنت نظیر جھیلوں کا جائزہ پیش کیا گیا تاہم اس پر بہت اچھا ردِ عمل سامنے آیا مگر کچھ افراد نے کئی جھیلوں کے شامل نہ ہو نے پر شکایات بھی کیں تو آپ کی فرمائش کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں ان تمام جھیلوں کو شامل کیا گیا ہے۔


بنجوسہ جھیل


بنجوسہ ایک مصنوعی جھیل اور مشہور سیاحتی مقام ہے، یہ راولاکوٹ سے بیس کلو میٹر دور ریاست آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں واقع ہے۔ بنجوسہ جھیل راولاکوٹ سے بذریعہ سڑک منسلک ہے۔ جھیل کے ارد گرد گھنا جنگل اور پہاڑ اس جھیل کو بے حد خوبصورت اور دلکش بناتے ہیں۔ یہاں گرمیوں میں بھی موسم خوشگوار رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی ہوتی ہے اور درجۂ حرارت منفی 5 سینٹی گریٹ تک گر جاتا ہے، دسمبر اور جنوری میں یہاں برف باری بھی ہوتی ہے۔


کنڈول جھیل


کم معروف ہونے کی وجہ سے سوات کا سفر کرنے والے اکثر سیاح کالام کے خوبصورت علاقے سے کچھ فاصلے پر واقع اس جھیل کے نام اور محل وقوع سے بھی واقف نہیں۔ کنڈول جھیل کی وسعت، پانی میں جھلکتے نیلے آسمان اور گرد و پیش کے پہاڑو ں کا عکس، راستے کی دقتوں اور تھکاوٹوں کو پل بھر میں دور کر دیتا ہے۔ اردگرد کی برف پوش چوٹیوں، سر سبز ڈھلوانوں اور درختوں کے درمیان کنڈول جھیل ایک گول پیالے کی صورت میں دلفریب نظارہ پیش کرتی ہے۔


کلر کہار جھیل


کلر کہار پنجاب کے ضلع چکوال کا ایک تفریحی مقام ہے، یہ تفریحی مقام چکوال کے جنوب مغرب میں 25 کلو میٹر کے فاصلے پر موٹروے ایم - ٹو کے ساتھ واقع ہے۔ کھارے پانی کی یہ جھیل سیاحوں میں کافی مقبول ہے، اس جھیل کے کنارے پر ایک امیوزمنٹ پارک موجود ہے جو اس کی خوبصورتی کو بڑھا دیتا ہے، جبکہ سیاحوں کے آرام کے لیے ایک موٹیل اور ریسٹورنٹ بھی یہاں کام کررہے ہیں۔یہاں بڑی تعداد میں مور بھی پائے جاتے ہیں۔ چاندنی رات میں جھیل کنارے مور کا رقص دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔


بوریتھ جھیل


وادی ہنزہ کے اوپری حصے میں گوجال کے قریب ایک گاﺅں حسینی میں واقع اس جھیل کو خوبصورت ترین کہا جاسکتا ہے مگر اس کے اوپر موجود لوگوں کے گزرنے کے لیے حسینی نامی پل اتنا ہی خطرناک ہے، شہر گلگت سے ایک راستہ گلیشیئر عبور کر کے جھیل بوریتھ پہنچتا ہے۔ یہ سفر پیدل تین تا چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے تاہم گلیشیئر میں خطرناک دراڑیں ہیں اس لیے مقامی گائیڈز کی مدد کے بغیر اس پر سے گزرنا خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ بوریتھ جھیل دراصل ان برفانی گلیشیٔرز کے پانی سے ہی وجود میں آئی ہے اور یہ وسط ایشیاء سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں اور فطرت سے محبت کرنے والے افراد کے لیے ایک زبردست جگہ ہے۔


غوراشی جھیل


غوراشی جھیل بلتستان کی وادی کھرمنگ میں واقع ہے اور یہ جنگلی خوبانی کے باغات اور پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی گہرائی اسی میٹر تک ہے تاہم پہاڑی علاقے میں ہونے کی وجہ سے یہاں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں لوگ ٹراﺅٹ مچھلی کے شکار کے لیے آتے ہیں۔


شیوسر جھیل


شیوسر جھیل گلگت بلتستان کے دیوسائی قومی پارک میں واقع ہے، یہ جھیل سطح مرتفع تبت کے سر سبز میدان میں 4142 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 203 کلو میٹر، چوڑائی 1.8 کلو میٹر اور اوسطاً گہرائی 40 میٹر ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے، گہرے نیلے پانی، برف پوش پہاڑیوں، سرسبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں کے ساتھ یہ منفرد جھیل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ شیوسر جھیل کے گرد چکر لگانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں جس سے اس کے طول و عرض کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


منچھر جھیل


یہ پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے جو دریائے سندھ کے مغرب میں ضلع دادو میں واقع ہے۔اس جھیل کا رقبہ مختلف موسموں میں 350 مربع کلومیٹر سے 520 مربع کلو میٹر تک ہوتا ہے۔ یہ جھیل بے شمار پرندوں کا مسکن ہے اور سردیوں میں یہاں سائیبریا سے بھی مہاجر پرندے سردیاں گزارنے آتے ہیں۔ یہاں میٹھے پانی کی مچھلی بھی کافی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ تاہم سیم نالے کا کھارا پانی جھیل میں ڈالنے کی وجہ سے یہ آلودگی کا شکار ہے اور یہاں کی جنگلی اور آبی حیات شدید متاثر ہے۔ یہ ایک تفریحی مقام بھی ہے اور تعطیلات کے دنوں میں کافی لوگ تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں۔


کینجھر جھیل


کینجھر جھیل جو عام طور پر کلری جھیل کہلاتی ہے کراچی سے ایک سو بائیس کلو میٹر کی مسافت پر ضلع ٹھٹہ میں واقع ہے۔ یہ پاکستان میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل ہے۔ یہ جھیل ضلع ٹھٹہ اور کراچی میں فراہمی آب کا ایک اہم زریعہ ہے۔ جھیل بے شمار پرندوں کا مسکن ہے اور اس کو پرندوں کے لیے محفوظ قرار دے دیا گیا ہے۔ سردیوں میں یہاں سائیبریا سے بھی مہاجر پرندے سردیاں گزارنے آتے ہیں۔ کینجھر جھیل ایک مشہور اور مقبول سیاحتی مقام بھی ہے۔ تعطیلات کے دنوں میں کراچی کے ہزاروں لوگ تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کینجھر جھیل پر ایک ہفتے میں سترہ ہزار لوگ سیر کرنے آتے ہیں مگر ان کے قیام کے لیے یہاں کوئی معیاری بندوبست نہیں ہے اس لئے وہ جلد ہی چلے جاتے ہیں۔ کینجھر جھیل میں موٹر پر چلنے والی چھوٹی کشتیاں ہی سیاحوں کی واحد تفریح ہیں۔


پائی جھیل


پائی جھیل وادیٔ کاغان میں شوگران کے قریب پائی کے سر سبز میدانوں میں واقع ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 9500 فٹ ہے۔ اس کے اردگرد مکڑا کی چوٹی، ملکۂ پربت، موسیٰ دا مصلیٰ اور کشمیر کے پہاڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ جگہ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔


سِری جھیل


سِری جھیل وادیٔ کاغان میں شوگران کے قریب واقع ہے، یہ تقریباً 8500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ سری جھیل ایک تالاب کی مانند ہے لیکن اس کے ارد گرد موجود سر سبز جنگلات اور پہاڑوں نے اسے بہت پُر کشش اور دلکش بنا دیا ہے۔


کٹورے جھیل (جہاز بانڈہ جھیل)


دیر بالا کی خوبصورت ترین وادیٔ کمراٹ سیاحوں کے لیے ابھی تک سر بستہ راز کی حیثیت رکھتی ہے اور اس میں ہی ایک انتہائی خوبصورت اور حسین جھیل کٹورے واقع ہے جس کا نظارہ کسی پر بھی جادو کرسکتا ہے۔ ساڑھے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس جھیل کے ارگرد برف پوش پہاڑ ہیں تاہم جون سے ستمبر تک یہاں جایا جاسکتا ہے۔


ماہو ڈنڈ جھیل


ماہو ڈنڈ جھیل ضلع سوات کی تحصیل کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر وادیٔ اسو میں واقع ہے۔ اس جھیل میں مچھلیوں کی بہتاب ہے اس لیے اسے ماہو ڈنڈ جھیل یعنی مچھلیوں والی جھیل کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کیمپنگ کے شائق ہیں تو جھیل کے کنارے سبزہ زار پر بلاخوف و خطر اپنا خیمہ نصب کر سکتے ہیں۔ یہاں ٹراﺅٹ مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ جھیل کی جانب جانے والے راستے میں کئی بہت خوب صورت مقامات آتے ہیں جن میں گلیشیئر، پلوگا اور آبشار قابل ذکر ہیں۔ آبشار نامی مقام اتنا خوب صورت ہے کہ ماہو ڈنڈ جانے والی گاڑیاں کچھ دیر کے لئے اس مقام پر رک جاتی ہیں اور سیاح 1500 فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے اس طویل اور پر عظمت آبشار کا نظارہ کرنے لگتے ہیں۔


بشکریہ وکی میڈیا کامنز، وکی پیڈیا