حسد، جلن اور انسان

29 اکتوبر 2014
ساتھ کام کرنے والے شخص اکثر اپنے کولیگ کی پروموشن سے بھی خائف رہتے ہیں— بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ساتھ کام کرنے والے شخص اکثر اپنے کولیگ کی پروموشن سے بھی خائف رہتے ہیں— بشکریہ وکی میڈیا کامنز
جیلسی عنصر صرف خواتین میں ہی نہیں مردوں میں نمایاں ہے— آن لائن فوٹو
جیلسی عنصر صرف خواتین میں ہی نہیں مردوں میں نمایاں ہے— آن لائن فوٹو

کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو ڈراموں میں بظاہر ثانوی ہوتے ہیں مگر ان کا نقش ہمیشہ کے لیے ذہن میں بس جاتا ہے ؟

ایسا بالکل ہوتا ہے اگر آپ نے کافی عرصہ پہلے پی ٹی وی پر چلنے والا ڈراما 'خواجہ اینڈ سن' دیکھا ہو تو اس میں ایک پروفیسر اداس صاحب تھے (اب کوئی سوچے کہ کوئی پروفیسر اداس کیوں ہے تو درحقیقت یہ ان کا شاعرانہ نام تھا) جن کا کردار تو خاص نہ تھا مگر ان کی شخصیت کا جو پہلو دکھایا گیا وہ ناقابل فراموش تھا۔

یعنی ایسا اعلیٰ سرکاری افسر جو شاعری کی دنیا پر بھی خود کو حکمران سمجھتا ہے اور جس کا اصرار ہوتا ہے کہ میر اور غالب جیسے شعراءتو اس کے سامنے پانی بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے ماتحت کی شاعری کے میدان میں مقبولیت سے جلن محسوس کرتا ہے۔

مگر کیا یہ واقعی صرف ڈرامے کی حد تک ہی محدود کردار تھا کیا آپ کو اپنے ارگرد ایسے لوگ نظر نہیں آتے ؟

یقیناً ہمارے ارگرد ایسے افراد کی واقعی کوئی کمی نہیں جو خود کو تو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں کو آگے نکلتا دیکھنا ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے اور وہ اس پر آپے سے باہر ہوکر ان کو کسی بھی طریقے سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یقین نہ آئے تو پاکستانی فلمی یا ٹی وی ستاروں کو ہی دیکھ لیں جو اوپری طور پر ایک دوسرے کو جتنا بھی سراہیں مگر پیٹھ پیچھے ان کی زبان سے ایسے 'پھول' جھڑتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

جیسے میرا یا ریشم کی زبانی جھڑپیں ہو یا ریما اور میرا کے درمیان الفاظ کا تبادلہ، ایسی مثالوں کی کوئی کمی نہیں اور بہت کم افراد ہی اس حسد سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔

یا وینا ملک، مونا لیزا یا عمائمہ ملک جیسے اسٹارز کو کون بھول سکتا ہے جو بولی وڈ میں پہنچنے کے بعد خود کو پاکستان کی سب سے بہترین اور مہنگی ترین اداکارائیں قرار دینے لگی تھیں۔

اور یہ صرف خاص نہیں بلکہ عام افراد بھی اس چیز میں کسی سے پیچھے نہیں خاص طور پر خواتین جو اپنی ہم صنفوں کی کسی بھی خوبی پر 'پھولے نہیں سماتی' اور اس کا توڑ اپنی زبان کی تلوار سے کرتی ہیں۔

اب یہ اچھے کپڑے ہوں یا جسمانی خوبصورتی، بہترین کھانا ہو یا جوتوں، آرائش گیسوﺅں اور بھی بہت کچھ ہر چیز میں آپ اس طرز فکر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ خود ایک خاتون ہو تو آپ کو اس کا تجربہ ہو بھی چکا ہو بلکہ بہت ہی برا تجربہ ہوچکا ہو۔

خواتین میں ایک دوسرے کے درمیان موٹاپے یا جسمانی کشش کو لے کر زبردست مقابلہ ہوتا ہے اور کہیں کوئی کسی خاتون کی کسی جسمانی خوبی کو سراہے تو دوسری خاتون فوراً ہی اس میں کوئی نہ کوئی عیب نکال کر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ پرکشش خواتین سے کوئی حسد نہ بھی کرے تو بھی ان کے بارے میں ہمدردی بہت کم ہی لوگوں میں باقی رہ پاتی ہے اور غیرارادی طور پر وہ اس کی بدقسمتی کے خواہشمند بن جاتے ہیں۔

مگر صنف کرخت بھی اس معاملے میں کچھ زیادہ پیچھے نہیں ہوسکتا ہے کہ پہناوے یا طرز زندگی ان کے لیے اہمیت نہ رکھتا ہو مگر دفتری مسابقت میں ان کا ساتھی آگے نکل جائے یہ کسی کے لیے ہضم کرلینا آسان نہیں ہوتا۔

اس کے ساتھ ساتھ مرد حضرات کے درمیان مسابقت اس وقت بدترین حسد کے جذبے کا شکار ہوجاتی ہے جب وہ کسی شعبے میں ایک ہی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کریں مگر اپنے جوش اور صلاحیتوں کی بناءپر دوسرا ساتھی کو پیچھے چھوڑ جائے پھر ان کی جانب سے ہر طرح سے اپنی ترقی یا کم از کم اپنے ساتھی کو نیچے لانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

مگر ایک صورت تو سب سے تباہ کن ہوتی ہے اور وہ یہ کہ محنت اور کارکردگی کوئی اور دکھائے اور کریڈٹ کسی اور کے حصے میں آجائیں یہ چیز اس متاثرہ شخص کو زبردست حسد کا شکار بنادیتی ہے جو یا تو اس کے لیے یا اس کے کام سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی بھی صورت میں نقصان دہ کارروائی کی شکل میں نکل کر سامنے آتا ہے۔

اب تو یہ معاملہ حقیقی دنیا سے نکل کر ورچوئل ورلڈ تک بھی پہنچ چکا ہے یعنی سوشل میڈیا سائٹس جہاں کسی کی اچھی پروفائل، بہتر تصاویر اور زبردست کمنٹس بھی حسد کی لپیٹ میں آجاتے ہیں بلکہ کوئی ایک اچھی چیز بھی دوسرے فرد کی زندگی کو قابل رحم بنانے کا سبب بن جاتی ہے۔

خود سائنس نے بھی تسلیم کیا ہے کہ فیس بک پر اچھی تصاویر یا کمنٹس کو دیکھ کر آن لائن فرینڈز احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے طنزیہ یا نفرت انگیز کمنٹس کے ذریعے دوسرے شخص کی زندگی اجیرن بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹوئیٹر اور فیس بک وغیرہ پر آج کل آن لائن ابیوز جیسی اصطلاح عام ہے جس کا شکار عام طور پر نوجوان نسل ہی بنتی ہے۔

مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو حسد کو ایسا جذبہ کہا گیا ہے جو نیکیوں کو کھا جاتا ہے یعنی درحقیقت یہ عمل اندر کے اچھے انسان کو مار کر ایک شیطان کو بیدا رکرتا ہے جو کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار رہتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں