پشاور: کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے گروپ جماعت الاحرار نے ایک سابق آرمی ڈاکٹر کی وڈیو جاری کی ہے جس میں وہ فوجی افسران اور سپاہیوں سے طالبان میں شامل ہونے کو کہہ رہے ہیں ۔

وڈیو میں جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ساتھ بیٹھے ایک باریش اور سیاہ پگڑی پہنے شخص اپنا تعارف ایک کیپٹن ڈاکٹر طارق علی کے نام سے کراتے ہیں۔

وڈیو میں علی دعوی کرتے ہیں کہ وہ فرنٹیئر کارپس بلوچستان، 80 بریگیڈ سیاچن اور پنجاب کے مختلف مقامات پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔

روانی سے انگریزی میں گفتگو کرنے والے علی نے وزیرستان میں پوسٹنگ کو فوج چھوڑنے کی وجہ بتائی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دو مرتبہ کام کر چکے ہیں اور جب انہیں سیکنڈ ان کمانڈ افسر نے تیسری مرتبہ وہاں تعیناتی کا حکم دیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔

'میں نے ٹو-آئی سی کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور کچھ دنوں بعد میں لندن چلا گیا'۔

انہوں نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے اس پر طالبان کا خراب امیج پھیلانے کا الزام لگایا۔

علی نے افسروں سے کہا کہ وہ شریعت اور اسلامی نظام نافذ کرنے کی خاطر مجاہدین میں شامل ہو جائیں۔

ابو عبیدہ الاسلام آبادی کے نام سے مشہور طارق علی نے وڈیو میں سینئر افسران اور سپاہیوں کو انگریزی اور اردو میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا 'پی اے' نمبر 103907 تھا اور انہوں نے آرمی میڈیکل کالج سے اٹھارواں کورس کیا۔

علی کے مطابق، انہوں نے تقریباً سات سال تک فوج میں خدمات سر انجام دینے کے بعد نو سال پہلے ملازمت چھوڑ دی اور پھر لندن اور کیمبرج سے جنرل سرجیکل ٹریننگ حاصل کی۔

اس دوران وہ دعوت تبلیغ کا کام بھی کرتے رہے۔' اللہ نے مجھے شوق جہاد عطا کیا۔ میں نے عراق جا کر داعش میں شامل ہونے کی نیت سے برطانیہ چھوڑا لیکن مجھے راستہ (کرویشیا) میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا'۔

پھر انہیں پاکستان بھیج دیا گیا جہاں انہیں شروع شروع میں کچھ مشکلات درپیش آئیں۔بعد میں انہوں نے جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کر لی۔

'شاید یہ اللہ کی مرضی تھی کہ میں عراق اور شام کے بجائے خراسان کے مجاہدین میں شامل ہوں'۔

سابق فوجی ڈاکٹر کے ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Abdul Rauf Khan Oct 17, 2014 12:01pm
اگر ایک پڑھا لکھا شخص ان پڑھ، جاہل اور گنوار لوگوں کی پیروی شروع کردے تو کیا فرق باقی رہ گیا ہے شعور والوں اور بے شعور میں۔ اے کاش ڈاکٹرصاحب آپ قرآن پاک کا مطالعہ کرتے، سیرت النبی ﷺ پڑھتے اور طالبان کے جہاد کا ایک تقابلی جائزہ لیتے پھر کوئی فیصلہ کرتے؟ اللہ کے نبیﷺ بےگناہوں کو، عورتوں ، بچوں اور بزرگوں ، حتیٰ کہ درختوں کو بھی کاٹنے سے منع کرتے ہیں اور یہ بد بخت طالبان نہ ان کے ہاتھ بچوں کا خون بہانے سے کانپے، نہ یہ مسجدوں کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کرنے سے باز آئیں نہ یہ فرقہ پرستی کی آڑ لے کر بزرگوں کے گلے کاٹنے سے باز آئیں۔ ذرا ہوش کے ناخن لیں اور دیکھیں کہ جو کام طالبان کر رہے ہیں کیا یہ شیریعت محمدی میں جائز بھی ہے کہ نہیں۔ اور یہ طالبان اپنے مفتیوں کے فتوے دکھا کر معصوم لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان مفتیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ وہی مُفتی نہیں ہیں کہ جو آج کہتے ہیں اہل حدیث کافر ہیں، دیوبندی کافر ہیں، شیعہ اور بریلوی کافر ہیں۔ ہر ایک فرقے کے پاس دوسرے فرقے کو کافر قرار دینے کے لیے ایک نہیں درجنوں مفتیان کرام موجود ہیں۔ اللہ سے پناہ مانگیں اور توبہ کریں اور اللہ سے راہ ہدایت طلب کریں۔