پاکستان کے لیے لائن آف کنٹرول کی اہمیت

24 اکتوبر 2014
پاکستان کو چاہیے کہ اپنے سرکاری نقشوں میں کنٹرول لائن کو واضح طور پر دکھائے، اور اس کی عارضی حیثیت کو بھی واضح رکھے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اپنے سرکاری نقشوں میں کنٹرول لائن کو واضح طور پر دکھائے، اور اس کی عارضی حیثیت کو بھی واضح رکھے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان بارڈر پر حالیہ جھڑپوں نے کئی سویلینز کی جانیں لی ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ویسے تو معمول ہے، اور اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ لیکن لائن آف کنٹرول کی اہمیت کیا ہے، کیا یہ ایک ڈی فیکٹو بارڈر ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا یا جس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی؟ پاکستان کے لیے اس کی کیا سیاسی اور قانونی اہمیت ہے؟

1949 کے کراچی ایگریمنٹ کے تحت لائن آف کنٹرول کو ایک سیزفائر لائن کی صورت میں قائم کیا گیا۔ اس کی حد گلیشیئرز کے شمالی طرف "خور" تک تھی۔ انڈیا نے 1984 میں یک طرفہ طور پر سیاچن گلیشئر پر قبضہ کر کے لائن آف کنٹرول کو طاقت کے ذریعے NJ9842 سے آگے پاکستان کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی، جو کہ کراچی ایگریمنٹ اور 1972 کے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔

دنیا کے زیادہ تر آفیشل میپس میں پاکستان کی پوزیشن گلیشئر کے شمالی جانب ہے، اور لائن آف کنٹرول شمال مغربی جانب سے قراقرم پاس کی تک پھیلی ہوئی ہے۔

کراچی ایگریمنٹ کے تحت سیزفائر لائن کی مانیٹرنگ، اور کسی بھی خلاف ورزی کی رپورٹ کرنا اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرورز کا کام تھا، اور 1951 میں یہ کام پاکستان اور انڈیا میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (UNOMGIP) کو سونپ دیا گیا۔ شملہ معاہدے کے تحت سیزفائر لائن کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اپنی پچھلی پوزیشن میں بحال کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول میں تبدیل کردیا گیا۔

شملہ معاہدہ دونوں ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول کا احترام کریں، اور اس لائن کی خلاف ورزی کرنے سے پرہیز کریں۔ اس کے علاوہ یہ یک طرفہ طور پر لائن آف کنٹرول میں کسی بھی قسم کی تبدیلی پر بھی پابندی عائد کرتا ہے۔ معاہدے کے بعد انڈیا نے موقف اختیار کیا کہ UNMOGIP کا مینڈیٹ ختم ہوچکا ہے، کیونکہ کراچی معاہدہ بھی اب ختم ہوچکا ہے، پر اس دعوے کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے مسترد کردیا۔

عالمی قانون کے تحت کراچی اور شملہ معاہدے کو ایک سات پڑھا جانا چاہیے۔ اس ایک مسئلے پر دو معاہدوں کی تشریح اسی طرح کی جاتی ہے، جب تک کہ دونوں معاہدوں کے درمیان ایک اختلافی نکتہ موجود نہ ہو۔ پاکستان UNMOGIP کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں رپورٹ کرتا رہتا ہے، لیکن انڈیا نے 1972 سے ایسا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کچھ ماہ پہلے انڈیا نے UNMOGIP کو اس کا دہلی آفس خالی کرنے کے لیے کہا، کیونکہ انڈیا کے مطابق اس کی اہمیت باقی نہیں رہی تھی۔ UNMOGIP نے کسی دوسری جگہ آفس قائم کرنے پر حامی بھری، لیکن اپنے مینڈیٹ کے تحت اپنا کام جاری رکھنے پر زور دیا۔

عالمی قانون کے تحت ایک بامقصد اور پروفیشنلی تیار کیا گیا نقشہ کسی بھی باؤنڈری لائن کا ایک مضبوط ثبوت ہوتا ہے۔ اب اس بات کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ نقشہ کسی بھی ریاست کے ارادوں اور کسی بھی بارڈر کے تسلیم کرنے پر اس کی آمادگی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے بعد اگر کسی علاقے پر قبضہ کر لیا جائے، تو نقشے اس تنازعے کے حل میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، ورنہ انہیں کسی بھی قانونی معاہدے وغیرہ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ عالمی ٹریبونلز نقشوں، سرویز، اور اسی طرح کے دوسرے مٹیریل کو اہم ثبوت کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہ بات 2002 میں اریٹریا-ایتھوپیا باؤنڈری کمیشن، جو کہ ایک مستقل ثالثی عدالت کے تحت کام کررہا تھا، کے فیصلے سے بھی واضح ہے۔

آج انڈیا کے سرکاری نقشوں میں جموں و کشمیر کو انڈیا کا مستقل حصہ دکھایا جاتا ہے، جبکہ پاکستان کے سرکاری نقشوں، خاص طور پر سروے آف پاکستان کی جانب سے تیار کیے گئے نقشے میں جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ دکھایا جاتا ہے۔

لیکن تاریخی طور پر پاکستان لائن آف کنٹرول کو سرکاری نقشوں میں دکھانے میں ہچکچاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ایسے اقدام سے اس عارضی باؤنڈری کو مستقل سرحد تسلیم کرلیا جائے گا، جس سے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ لائن آف کنٹرول کو نقشے کا حصہ بنانے کا مطلب اس کے مغربی جانب واقع تمام علاقے کو انڈیا کی ملکیت تسلیم کر لینا ہوگا۔

لیکن پاکستان کو اب لائن آف کنٹرول کو سرکاری نقشوں میں واضح کرنا چاہیے، کیونکہ اگر مستقبل میں انڈیا پاکستان کے زیرِ اثر جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوئی کوشش کرے، تو عالمی قانون کے تحت اسے اپنی اس کوشش کا جواز پیدا کرنے میں مشکل ہوگی۔

لائن آف کنٹرول کو سرکاری نقشوں پر دکھانا ایک سیاسی طور پر حساس معاملہ ہے، لیکن پاکستان کو اپنی قانونی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ لائن آف کنٹرول کو قراقرم پاس تک واضح طور پر نظر آنا چاہیے، تاکہ پورا سیاچن گلیشیئر اس کے مغربی جانب دکھائی دے۔

اس کے علاوہ نقشوں پر واضح الفاظ میں یہ بتا دیا جائے، کہ یہ انڈیا اور پاکستان کے مابین کراچی ایگریمینٹ، جس کو شملہ معاہدے کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، کہ تحت ایک عارضی سیزفائر لائن ہے؛ یہ کہ اسے سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 91 (1951) کے تحت UNMOGIP مانیٹر کرتا ہے، اور یہ ایک ڈی فیکٹو بارڈر ہے، جب تک کہ مسئلہ کشمیر کا حل حقِ خودارادیت کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت نہیں نکل آتا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری وزارتِ خارجہ کے سابق قانونی مشیر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں