اور زندگی بدلتی ہے (2000)، کہانیاں (2001)، پہچان (2005)، دوراہا (2008)، ملال (2009)، دام (2010) اور متاع جان (2012) یہ مہرین جبار کی پاکستانی چینلز پر کامیابیوں کی لمبی قطار کی چھوٹی سی مثال ہے اور اب یہ ڈائریکٹر 'جیکسن ہائٹس' کے ساتھ سامنے آئی ہے جو ہر جمعے کو چینیل اردو ون سے نشر ہوتا ہے۔

واسع چوہدری کی تحریر اور سکس سگما پلس کی پروڈکشن میں بنے اس ڈرامے میں امریکی شہر نیو یارک میں پاکستانیوں کو درپیش مشکلات کا احوال بتایا گیا ہے۔

ڈرامہ ریویو: جیکسن ہائٹس

ڈان سے ایک ای میل انٹرویو میں مہرین جبار نے جیکسن ہائٹس، پاکستانی ڈراموں اور سینما کے احیاء پر بات کی۔


سوال : جیکسن ہائٹس سے آپ خود کو کیسے منسلک سمجھتی ہیں؟

مہرین جبار : میں لگ بھگ دس برس تک نیو یارک میں مقیم رہی ہوں اور جیکسن ہائٹس ہمیشہ ہی ہمارے جنوبی ایشیائی دوستوں کی گفتگو کا حصہ رہتا ہے، جس کی وجہ یہاں ملنے والے کھانے اور گروسری اسٹورز ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ نیو یارک کا وہ علاقہ بھی ہے جہاں جنوبی ایشیائی افراد کی آبادی زیادہ ہے۔

سوال : اس ڈرامے کی تمام کاسٹ پہلے بھی آپ کے ساتھ کام کرچکی ہے، کیا آپ ان کے ساتھ کام کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہیں؟

مہرین جبار : یہ کام کرنے کے لیے زبردست ٹیم ہے، یہ سب بہت اچھے اداکار اور ہاں علی کاظمی کے سوا میں ان سب کے ساتھ پہلے بھی کام کرچکی ہوں جس سے کافی مدد ملی ہے، یہ کاسٹ ایک دوسرے سے کافی مانوس ہے اور اس لیے اپنے کرداروں میں ڈھل گئے ہیں، سب نے جان لگا کر کام کیا ہے تو ان کے کام کو دیکھنا واقعی اچھا تجربہ ہوگا۔

سوال : آپ اس ڈرامے سے کیا دکھانا چاہتی ہیں؟

مہرین جبار : اس کی اسٹوری میں کئی خیال اور چیزیں موجو ہیں اور میں بس یہ چاہتی ہوں کہ دیکھنے والے اس کے ہر ٹٰریک سے لطف اندوز ہوں اور ان سے جڑا ہوا محسوس کریں، میرے خیال میں واسع نے اسکرپٹ پر زبردست کام کیا ہے اور توقع ہے کہ یہ سیریل کرداروں اور ان کے تنازعات کے حوالے سے کافی مختلف ثابت ہوگا۔

سوال : اس سے پہلے آپ نے اور زندگی بدلتی ہے، ملال، متاع جان اور نیّت جیسے ڈرامے بیرون ملک میں بنائے، ان میں سے اور زندگی بدلتی ہے کو نکال کر دیگر تین ڈرامے دیکھنے سے ایک جیسا ہی احساس ہوتا ہے، کیا جیکسن ہائٹس ان سے کچھ مختلف ہے؟

مہرین جبار : میں نے پہچان اور نیو یارک اسٹوریز بھی کیا ہے جو نیویارک میں ہی شوٹ ہوئے، ہر سیریل کی کہانی، مصنف اور اداکار مختلف تھے، مگر ان میں مشترکہ چیز نیو یارک تھا جبکہ اور زندگی بدلتی ہے اسپین میں بنایا گیا۔

میرے خیال میں جیکسن ہائٹس مختلف ہے کیونکہ اس کے کرداروں میں بہت زیادہ تنوع اور ان میں غیر متوقع عناصر رکھے گئے، جبکہ واسع چوہدری نے ان پر کافی کام کیا ہے توقع ہے کہ آپ کو دیکھنے پر مزید جاننے کا موقع ملے گا۔

ایک اور چیز جو جیکسن ہائٹس میں مختلف ہے وہ اس میں بہت زیادہ لوکیشنز اور سپورٹنگ اداکار جو دیگر سیریلز میں نظر نہیں آئیں گے۔

سوال : کسی ڈرامے کا ساﺅنڈ ٹریک کتنا اہم ہوتا ہے، درحقیقت آپ کے ڈراموں میں ہمیشہ ہی یادگار ٹریکس ہوتے ہیں جنھیں معروف فنکار جیسے بلال خان، زیب اینڈ ہانیہ اور طاہرہ سید وغیرہ کمپوز اور گاتے ہیں؟

مہرین جبار : میرے خیال میں موسیقی کسی بھی پراجیکٹ کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہوتا ہے اور میں بہت خوش ہوں کہ میں سعد سلطان اور رضوان انور کے گائے ہوئے زبردست گانے 'لائیاں لائیاں' کو استعمال کر رہی ہوں، اس کے علاوہ زیاد گلزار جنھوں نے دام، متاع جان اور ملال میں پس منظر موسیقی پر کام کیا تھا۔ جیکسن ہائٹس کے لیے بالکل نیا خیال لے کر آئے، میرے خیال میں انہوں نے واقعی زبردست پیس پروڈیوس کیے ہیں۔

کینیڈین ڈرامہ سیریل مینگوز جو اے ٹی این کینیڈا میں 2012 میں ریلیز ہوا، اس میں بھی جنوبی ایشیائی افراد کی زندگی کو غیر ملکی سرزمین پر دکھایا گیا تھا، کیا جیکسن ہائٹس مینگوز سے متاثر ہے؟

مہرین جبار : میں مینگوز سے واقف ہوں، مگر بدقسمتی سے اسے دیکھ نہیں سکی ہوں، جیکسن ہائٹس پر سیریل بنانے کا خیال میرے ایک دوست اور ساتھی ڈائریکٹرز شہرزادے شیخ نے دیا تھا جب میں نیت بنا رہی تھی، یہ ایک دل کو چھونے والا خیال تھا اور واسع نے اس اسکرپٹ کے ساتھ رابطہ کیا اور اس نے کافی منفرد کام کیا ہے۔

سوال : متعدد پاکستانی فلمیں رواں برس ریلیز ہو رہی ہیں جنھیں اچھا ردعمل بھی ملا ہے، کیا آپ نے رام چند پاکستانی کی عالمی سطح پر کامیابی کے بعد کسی اور فلم کی منصوبہ بندی کی؟

مہرین جبار : میں پاکستانی فلمی صنعت میں ہلچل پر بہت پُرجوش ہوں اور میں یقیناً اپنی دوسری فلم کی منصوبہ بندی کروں گی۔

سوال : پاکستانی فلمی صنعت کی کامیابی میں ٹی وی صنعت کے کرار پر آپ کا کیا خیال ہے؟ خاص طور پر یہ کہ متعدد ٹی وی فنکار فلموں کا رخ کر رہے ہیں، کیا آپ کے خیال میں ہمیں فکرمند ہونا چاہئے کہ لوگوں کو فلموں اور ڈراموں میں ایک ہی جیسی کاسٹ دیکھنا پڑے گی؟

مہرین جبار : فلمی صنعت کی دوبارہ بحالی کے لیے ہمیں آگے دیکھنا ہوگا چاہے یہ ٹیلیویژن سے اداکاروں کی محنت کا ہی نتیجہ کیوں نہ ہو، میرا نہیں خیال اس میں کوئی برائی ہے، ہمارے پاس ٹیلیویژن میں بہت اچھا ٹیلنٹ موجود ہے اور یہ وقت ہے کہ وہ اس صلاحیت کا اظہار دوسرے میڈیم میں کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں