دنیا سے اوجھل پاکستانی گاﺅں کی روایت شکن خواتین

22 اکتوبر 2014
ششمال مانٹیئرنگ اسکول  کی ایک طالبہ پہاڑی چوٹی پر چڑھتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو
ششمال مانٹیئرنگ اسکول کی ایک طالبہ پہاڑی چوٹی پر چڑھتے ہوئے— اے ایف پی فوٹو
ششمال مانٹیئرنگ اسکول کی طالبات— اے ایف پی فوٹو
ششمال مانٹیئرنگ اسکول کی طالبات— اے ایف پی فوٹو

ہنزہ : نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ قالین سے سجے فرش میں بیٹھی اپنے استاد کو وائٹ بورڈ پر لکھتا دیکھ رہی ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنی طالبات کو دنیا کی چند بلند ترین چوٹیوں پر چڑھنے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

یہ ششمال مانٹیئرنگ اسکول ہے جو کہ پاکستان کے شمالی کونے کے ایک دور دراز گاﺅں میں چین کے سرحد کے قریب سانسیں روک دینے والی پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔

اگرچہ پاکستان کے معاشرے کے بڑے حصے میں خواتین کو محض گھریلو کاموں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے مگر وادی ہنزہ کے باسی طویل عرصے سے اس حوالے سے آزاد خیال رویے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

اب اس خطے کی خواتین مزید ممنوع روایات کو توڑ کر ایسے شعبوں میں آگے آرہی ہیں جنہیں روایتی طور پر مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جن میں کارپینٹر اور کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں کے حوالے سے کوہ پیماگائیڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

انسٹرکٹر نیامت کریم اپنی طالبات کو خبردار کررہے ہیں کہ "آپ کو بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اپنے آلات اور رسی کو چیک کریں کوئی معمولی سی خامی بھی موت کا سبب بن سکتی ہے"۔

کریم آٹھ نوجوان لڑکیوں کو آخری منٹ کی ایڈوائس دے رہے ہیں جو اب کوہ پیمائی کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ خواتین کا پہلا بیچ ہے جسے اس اسکول میں بلند چوٹیوں کے گائیڈ کے لیے تربیت دی گئی ہے جو کہ 2009 میں اطالوی کوہ پیما سمون مورو کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔


الگ تھلگ برادری


ان خواتین نے گزشتہ چار برس برف اور پہاڑ پر کوہ پیمائی کی تیکنیک، ریسکیو صلاحیت اور ٹورازم منیجمنٹ کو سیکھتے ہوئے گزارے ہیں۔

سطح سمندر سے 3100 میٹر بلندی پر واقعہ ششمال وادی ہنزہ کی بلند ترین بستی ہے جو باقی دنیا سے ایک مشکل راستے کے ذریعے جڑی ہے جو گیارہ سال پہلے ہی تعمیر ہوا اور وہاں صرف جیپ ہی چل سکتی ہے۔

یہ تنگ اور ٹوٹی پھوٹی سڑک گول چکر کھاتی ہوئی بلند پہاڑی کی جانب جاتی ہے، جس کے دوران لکڑی سے بن پل اور خطرناک موڑ آتے ہیں جبکہ ڈھائی سو گھرانوں پر مشتمل اس چھوٹے سے گاﺅں تک رسائی میں لینڈ سلائیڈ کے خطرے کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں پانی کی سہولت دستیاب نہیں جبکہ بجلی بھی ان افراد کو ہی میسر جو چین سے شمسی پینلز خرید کر لائے ہیں، مگر اس علیحدگی کے باوجود اس گاﺅں میں شرح تعلیم 98 فیصد ہے جو پاکستان کی قومی اوسط سے دوگنا زائد ہے۔

یہاں سے دنیا کے مقبول ترین کوہ پیما سامنے آئے ہیں جن میں ثمینہ بیگ بھی شامل ہیں جو ماﺅنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔

شمشال کے باسیوں کے روزگار کا انحصار سیاحت پر ہے اور اوسطاً یہاں کے ہر گھرانے میں ایک کوہ پیما ہوتا ہی ہے۔

گائیڈز کی حیثیت سے تربیت لینے والی آٹھ خواتین نے چھ ہزار میٹرز سے بلند منگالک سر اور جولیو سر سمیت چار مقامی چوٹیوں کو سر کیا ہے

اس اسکول سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ کوہ پیما تخت بکا کو لگتا ہے کہ اس کا خواب تعبیر پاگیا ہے" میرے چچا اور بھائی کوہ پیما ہیں اوروہ جب بھی کسی مہم پر جاتے ہیں تو میں ہمیشہ سے ان کی واپسی کی منتظر رہتی ہوں "۔

اس کا کہنا تھا"میں ان کی کلائمبگ گیئر سے کھیلتی تھی اور وہ میرے بچپن کا کھلونے تھے کیونکہ میرے پاس کبھی کوئی گڑیا نہیں رہی"۔

جہاں تک Dour بیگم کی بات ہے تو کوہ پیمائی ان کی خاندانی روایت اور اپنے شوہر پر فخر کا باعث ہے جو وادی ہنزہ میں کوہ پیمائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے"میں اپنے دو بچوں کی پرورش کررہی ہوں تاہم میرے پاس آمدنی کا کوئی مناسب ذریعہ نہیں"۔

اسی لیے انہوں نے اس اسکول کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے مرحوم شوہر کے ورثے کو آگے بڑھانے اور بہتر زندگی کے حصول میں مدد مل سکے۔

ان کے بقول"میں یہ تمام تر خطرات اپنے بچوں کے لیے مستقبل کے لیے اٹھا رہی ہوں، تاکہ انہیں اچھی تعلیم فراہم کرسکوں اور ان کا مستقبل روشن ہوسکے"۔

تاہم اس وقت جب خواتین گائیڈز کی تربیت حاصل کرکے پرانی روایات کو چیلنج کررہی ہیں اس وقت انہیں عوامی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے بھی طویل جدوجہد کرنا ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ Dour بیگم اب تک پیشہ ور گائیڈ نہیں بن سکی ہیں" میں جانتی ہوں کہ یہ مشکل ہے اور اس پیشے میں خواتین کو مواقعے ملنے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے مگر میرے بچے میری امید ہیں"۔


میں اپنے بچوں کی پرورش کررہی ہوں


اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

اس وادی کے برفانی چوٹیوں سے بہت نیچے یعنی زیریں حصے میں دو بچوں کی ماں بی بی گلشن جن کے شوہر فوج کی جانب سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے تھے، ذہنیت میں تبدیلی لانے کی یہی کہانی سناتی ہیں۔

انہوں نے ویمن سوشل انٹرپرائز(ڈبلیو ایس ای) کے تحت کارپینٹر کی تربیت حاصل کی، یہ منصوبہ اس علاقے میں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے تحت شروع کیا گیا تھا تاکہ غریب خاندانوں کی آمدنی میں اضافہ جبکہ خواتین کو آگے لایا جاسکے۔

لگ بھگ گیارہ سال سے مصروف عمل ڈبلیو ایس ای میں اب ایک سو دس سے زائد خواتین کام کررہی ہیں جن کی عمریں انیس سے 35 سال کے درمیان ہے۔

گلشن بی بی کا کہنا ہے"میں اپنے بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ اپنے والد کی عدم موجودگی کو محسوس نہ کرسکیں"۔

وہ مزید بتاتی ہیں"میں نے یہ ملازمت اپنی شوہر کی شہادات کے صرف دس روز بعد شروع کی تھی، میری سہلیاں یہ کہہ کر میرا مذاق اڑاتی تھیں کہ اپنے شوہر کا سوگ منانے کی بجائے میں نے ایک اور مرد کی تلاش میں ملازمت شروع کردی ہے، مگر میرے پاس اپنے بچوں کی پرورش کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا'۔

وہ اس ورکشاپ میں ماہانہ آٹھ ہزار روپے کمانے میں کامیابی رہتی ہیں جس سے وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرتی ہیں جبکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے خاندان کے لیے نئے گھر کی تعمیر اور فرنش کرنے کے لیے بھی استعمال کررہی ہیں۔

پراجیکٹ ہیڈ سیف اللہ بیگ کا کہنا ہے کہ روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف مرد کارپینٹر ہی گھروں کو تعمیر کرسکتے ہیں جو کہ بالکل غیرسائنسی سوچ ہے۔

ان کے مطابق"یہ لڑکیاں ہر قدم پر سائنسی علم کو استعمال کرتی ہیں اور اپنے کام کو زیادہ بہتراور مستحکم طریقے سے کرتی ہیں"۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Oct 22, 2014 07:12pm
It is Shimshal Mountaineering School not Shishmal. Whoever wrote this lacks knowledge about the area mentioned. Pity.!